سٹی42: اسرائیل نے یمن میں حوثی ملیشیا کے زیر استعمال ہوائی اڈوں، پاور اسٹیشنوں اور 'فوجی انفراسٹرکچر' کو نشانہ بنایا ہے۔
انٹرنیشنل نیوز آؤٹ لیٹ بی بی سی نے بتایا کہ اسرائیل کی فوج IDF کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے یمن میں حملہ کیا ہے: صنعا بانٹرنیشنل ائیرپورٹ پر حوثیوں کے زیر استعمال "فوجی انفراسٹرکچر" ہیزیاز اور راس کناتیب پاور اسٹیشن اسرائیل کی مسلسل ائیر سٹرائیکس کی زد میں ہیں۔
یمن کے مغربی ساحل پر الحدیدہ، سلف اور راس کناتیب بندرگاہوں میں "فوجی بنیادی ڈھانچہ" بھی اسرائیلی ائیر فورس کے طیاروں کی سٹرائیکس کی زد میں آئے ہیں۔
بریکنگ نیوز کے طور پر ٹریٹ کی جا رہی اس خبر کی تفصیلات ابھی سامنے آ رہی ہیں۔اب تک یہ سامنے آیا ہے کہ یمن میں اسرائیل کے طیاروں نے ہوائی اڈے، ایئر بیس اور پاور پلانٹ پر حملے کئے ہیں اور ان حملوں کی رسمی تصدیق بھی کر دی ہے۔
فضائی حملے کہاں ہوئے اس بارے میں اب مزید تفصیلات
دارالحکومت صنعا کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ، الدیلمی فوجی اڈے کے ساتھ واقع ہے ، جو سویلین مقاصد کے لئے بنائے گئے انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے ساتھ ایک رن وے کا اشتراک کرتا ہے ۔ آج اسرائیلی بمباری مین پہلی مرتبہ صنعا کے اس ائیرپورٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور ساحلی شہر الحدیدہ میں ایک پاور پلانٹ کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ اطلاعات انٹرنیشنل خبر ایجنسی اے ایف پی ک نے شئیر کی ہیں جو عینی شاہدین اور حوثی باغیوں کا حوالہ دے رہی ہے۔
حوثیوں کے ٹھکانوں پر 19 دسمبر کے حملے
اسرائیل نے 19 دسمبر کو جمعرات کے روز بھی علی الصبح یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں پر غیر معمولی طاقت کے ساتھ حملے کئے تھے جبکہ حوثیوں کے بھیجے ہوئے میزائلوں میں سے ایک میزائل کو یروشلم میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے نزدیک انٹرسیپٹ ہوا تھا اور اور ایک میزائل تل ابیب میں ایک سکول کی عمارت سے ٹکرا گیا تھا۔ IDF نے یمن میں مسلسل ائیر سٹرائیکس کر کے تمام 3 حوثی بندرگاہوں کو مفلوج کر نے کا دعویٰ کیا تھا۔۔
جمعرات کے آغاز کے گھنٹوں میں رات کے دوران ہونے والے درجنوں فائٹر طیاروں کے ساتھ کئے گئے فضائی حملوں میں پہلی بار آئی ڈی ایف نے صنعاء میں اہداف کو نشانہ بنایا تھا، اور یہ تیسری بار تھا جب اسرائیل نے یمن پر حملہ کیا تھا۔ ان حملوں میں تل ابیب میں حوثی ڈرون کے ایک شہری کی ہلاکت کے بعد جولائی میں ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
آج شب صنعا کے فوجی ائیرپورٹ سمیت متعدد سٹریٹیجک اہداف پر حملے کئے جا رہے ہیں جن میں ہونے والی نقصانات کی تفصیل ابھی سامنے نہیں آ پائی۔