(زین مدنی ) ” ہمیشہ دیر کردیتا ہوں“ کا شکوہ کرتے شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کو دنیا سے منہ موڑے13برس بیت گئے۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں 1927 میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے۔یہاں وہ کئی اخبارات و ریڈیو اور بعد میں ٹیلیویڑن سے وابستہ رہے۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اردو میں ان کے 13 شعری مجموعے شایع ہوئے۔ جن میں 'تیز ہوا اور تنہا پھول'، 'جنگل میں دھنک'، 'دشمنوں کے درمیان شام'، 'سفید دن کی ہوا'، 'سیاہ شب کا سمندر'، 'ماہ منیر'، 'چھ رنگین دروازے'، 'آغاز زمستاں' اور دیگر شامل ہیں۔
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اس کے علاکلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے، پنجابی میں بھی ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے۔ منیر نیازی کا 26دسمبر 2006 کو لاہور میں انتقال ہوا تھا۔
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں