سٹی42: پنجاب کے کسانوں نے پانچ ماہ دن رات محنت کر کے جو گندم اگائی، اسے بیچنے کےدر در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے۔
خطیر لاگت اور محنت سے کاشت کی ہوئی گندم کو مناسب قیمت پر بیچنا کسانوں کے لئے مشن امپاسبل بن گیا۔ پنجاب میں گندم کی سرکاری خریداری کا ٹارگٹ اس سال بہت کم رکھے جانے کی وجہ سے سرکاری گندم خریداری مراکز پر صرف مخصوص زمینداروں کو اپنی گندم بیچنے میں کامیابی ہو رہی ہے۔ کسانوں کے پاس وافر گندم فروخت کے لئے موجود ہے لیکن غلہ منڈیوں میں پراسرار طریقہ سے گندم کی قیمت گر گئی ہے اور آج کل گندم کی فی من قیمت تین ہزار روپے فی من تک گرا دی گئی ہے۔
پنجاب حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے من مقرر کر رکھی ہے جو گزشتہ سال کی امدادی قیمت کی نسبت بایک سو روپے من زیادہے جبکہ مارکیٹ میں فروخت کی جا رہی گندم کی ہول سیل قیمت سے کافی کم ہے۔ محکمہ خوراک کی جانب سے باردانہ کی تقسیم بھی سست روی کا شکار ہے۔
حالیہ خراب موسم نے بھی گندم کے کاشتکاروں کی پریشانیاں دوچند کر دی ہیں۔ کچھ کاشتکاروں نے گندم دیر سے اگائی تھی اور ابھی تک کٹائی نہیں کی۔ بیشتر کاشتکاروں نے گندم کٹائی کے بعد عارضی طور پر غیر محفوظ طریقوں سے سٹاک کر رکھی ہے جس کے سبب ناگہاں بارشوں سے یہ خراب ہو سکتی ہے۔
راجن پور اور دیگر اضلاع میں سرکاری سطح پر گندم کی خریداری شروع نہ ہونے پر کسانوں کی گندم کھلے آسمان تلے پڑی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں کسان مزید پریشان ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے کہا ہے کہ گندم 3200 روپےمن فروخت ہورہی ہے اور 3900 فی من کی قیمت کسان کونہیں ملی۔
انہوں نے کہا کہ کاشتکار کے اربوں روپے مڈل مین کے پاس پڑے ہوئے ہیں، مل پابند ہے کہ کاشتکار کو ادائیگیاں کرے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ جتنی گندم کی فصل آگئی ہے اتنی تو محکمہ خوراک کے پاس رکھنے کی گنجائش بھی نہیں، گندم بھاری مقدار میں امپورٹ کی گئی، پرانی گندم بھی گوداموں میں موجود ہے۔