ملک اشرف: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نےڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڈ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا آپ لوگوں نے شہر کا بیڑہ غرق کردیا، آپ کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر جو کام کرواتے ہیں ان کے آگے آپ کچھ نہیں کر سکتے،عوام کیلئے آپ لوگ کوئی کام نہیں کرتے، ڈی جی صاحب جب آپ چلے جائیں گے تب نیب آپ کو پکڑے گی۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے فیروز پور سٹی کو ایل ڈی اے میں ریگولرائز نہ کرنے کیخلاف محمد خان وغیرہ کی درخواست پر سماعت کی۔ ڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڑاور درخواستگزار کی طرف سے وقار اے شیخ ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔وکیل ایل ڈی اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کمیٹی بن گئی، 5 مئی کو میٹنگ ہو جائےگی، سروے بھی ہو گیا اور متعلقہ اتھارٹی کے پاس معاملہ بھجوا دیا گیا۔ چیف جسٹس محمد قاسم خان نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں کہ کمیٹی میں سیکرٹری فنانس کا کیا کام ہے؟ اسی لئے تو شہر کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔سرکاری وکیل نے جواب دیا 6 منتخب نمائندے، چیئرمین پی اینڈ ڈی، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ، ٹیکنیکل ممبر اور دیگر افراد شامل ہیں۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ ایم پی ایز کا یہ کام نہیں کہ فلاں ہائوسنگ سوسائٹی کی منظوری دی جائے۔ درخواستگزاروکیل وقار اے شیخ نے کہا وائس چیئرمین ایل ڈی اے کا مفادات کا ٹکراو ہے، سیکرٹری ہائوسنگ خود ایک ڈویلپر ہیں، اس نے ہی وائس چیئرمین ایل ڈی اے کو کمیٹی میں نامزد کیا ہے۔چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ڈی جی ایل ڈی اے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ایل ڈی اے کے دفتر میں بیٹھ کر بندر بانٹ ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے لاہور کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے، قبرستان کی کروڑوں کی زمین کو رہائشی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی، پھر آپ لوگ کہتے ہیں کہ نیب کے ڈر کی وجہ سے ہم کام نہیں کر پاتے۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایل ڈی اے کے جواب پر کہامجھے یہ مخصوص بیورو کریٹک سٹائل نہیں چاہئے، میں نتائج کا قائل ہوں، مجھے بتائیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں کام ہوا، 6 مارچ سے 21 اپریل تک آپ صرف دستاویزات تیار کرتے رہے؟ مجھے تاریخوں سے بتائیں کہ ٹیکنیکل کمیٹی نے کیا کام کیا، بااثر لوگوں کی سکیموں کو آپ نے منظور کیا۔ عدالت نے 6 مئی کو ڈی جی ایل ڈی کو وضاحت سمیت طلب کر تے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔