تازہ تازہ خبر آئی ہے کہ تحریک انصاف میں اختلافات کی چنگاری آگ بن گئی ہے، یاد تو ہوگا کہ صرف ایک روز قبل وزیر اعلیٰ خیبر پختونحوا علی امین گنڈا پور نے بانی پی ٹی آئی سے ڈیڑھ گھنٹے طویل ملاقات کی جس کے بعد وہ میڈیا پر بات کیے بغیر واپس چلے گئے۔ اب خیبر سے ذرائع نے خبر دی ہے کہ علی امین گنڈا پور نے ملاقات میں شکایات کے انبار لگادئیے ، جس میں سرفہرست مولانا فضل الرحمان سے قربتوں پر اُن سمیت خیبر پختونحواہ کی قیادت کو اعتماد میں نا لینا ہے ، اس کے بعد میانوالی جلسے کو راولپنڈی منتقل کرنے پر تحفظات ہیں جبکہ آخر میں پنجاب تحریک انصاف سے عوامی ، مالی و اخلاقی سپورٹ نا ملنے کا شکوہ ہے ، ان تینوں پر باری باری بات کرلیتے ہیں ۔
سب سے پہلے جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خبر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کا ایک گروپ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بہتر تعلقات پر نالاں ہے ، ناراض گروپ کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے ساتھ تعلقات کی بہتری سے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک متاثر ہو سکتا ہے۔ پشاور کے ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ علی امین گنڈاپور اور شبلی فراز سمیت متعدد رہنما جے یو آئی ف کے ساتھ سیاسی شراکت داری پر خوش نہیں ہیں۔ دوسری جانب محمود خان اچکزئی کے حامی پی ٹی آئی اراکین بھی مولانا فضل الرحمان کو لیڈ رول دینے پر پی ٹی آئی قیادت سے خائف ہیں ،پی ٹی آئی کی مرکزی اور خیبرپختونخوا کے متعدد رہنما اسد قیصر کی مفاہمتی پالیسی سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں ،علی امین گنڈاپور کی جانب سے بھی اسد قیصر اور دیگر رہنماؤں کو مولانا فضل الرحمان کے ساتھ تعلقات میں احتیاط برتنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے ، اس معاملے کی گہرائی میں جائیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونحواہ علی امین گنڈا پور ایک جانب مولانا کی صوبے میں سیاسی اہمیت کو بڑھانے کے مخالف ہیں، دوسری جانب وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مولانا اور تحریک انصاف میں قربت لمبے عرصے نا چلے اور وہ آئینی ترمیم منظور ہونے میں رکاوٹیں دور ہوجائیں جس سے ملک میں ایک نئی آئینی عدالت کا قیام ہوگا ، مدت ملازمت میں بھی توسیع ہوجائے گی اور اس کے پیچھے اُن کی نیت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی "مدت ملازمت" میں بھی توسیع چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے جب گورنر راج اور عدم اعتماد کی دھمکیاں لگائی جائیں گی تو بندہ محفوظ بنکر میں پناہ لینا چاہے گا اور بنکر بنانے والا پاکستان میں ایک ہی ادارہ ہے ۔
اب ذرا دوسرے مدعے پر آجائیں کہ علی امین گنڈا پور کو میانوالی سے راولپنڈی میں جلسے کی منتقلی کیوں نہیں بھائی؟ ذرا پچھلے پیراگراف کو اس پیرا گراف سے ملا کر پڑھیے تو آپ کو علم ہو کہ بھائی جس بنکر میں انسان پناہ گزیں ہو وہاں کسی بھی قسم کی افراتفری یا شور و غوغا قابل قبول نہیں ہوتا ، میانوالی ٹھیک تھا کپتان کا اپنا حلقہ تھا دور دراز دریائے سندھ کے ساتھ اس علاقے میں قبائلی افراد کو سرداروں کے حکم پر اکٹھا کرنا آسان تھا لیکن راولپنڈی میں ایسی سہولت کہاں؟ سارا بوجھ علی امین گنڈا پور کے نازک کندھوں پر ڈالاجائے گا، بندے لانے کا جلسہ گاہ بڑھنے کا اور "شہد" کی بوتلیں پہنچانے کا کہ وہ تو لاہور جلسے میں بھی اس لیے نہیں پہنچے تھے کہ وہ مزید کسی قسم کا تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتے، ظاہر ہے اقتدار حمام باز گشت ہوتا ہے جو ایک بار اس کا مزہ چکھ لیتا ہے بار بار اس کا مزہ چکھنا چاہتا ہے یا اسی میں رہنا چاہتا ہے، یہ ایک ایسے شیشے کا گھر ہوتا ہے جس کے باہر مارا ماری دوڑ دھوپ اور مظاہرہ کرتے افراد بیوقوف نظرآتے ہیں اس لیے گنڈا پوری کی بڑھکیں صرف بڑھکیں ہیں ۔
اب آئیں تیسرے نقطے کی جانب تو لاہور جلسے نے قائدین کے اختلافات کو کھول کررکھ دیا۔ یاد کریں علیمہ خان کا اڈیالہ کے باہر وہ بیان جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اُن کے بھائی کو رہا کرانے میں پارٹی کے چند لوگ دلچسپی نہیں رکھتے ، جی ہاں وہ غلط نہیں تھیں، پارٹی پنجاب کی حد تک عملاً وکلاء کے ہاتھ میں جاچکی، مرکزی قیادت جیلوں میں ہے یا مفرور ہے، وکلاء نے اس صورتحال میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کیا لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کامیاب وکلا مقدمہ جیتا نہیں کرتے کھینچا کرتے ہیں تاکہ کبھی فوٹو کاپیوں کے پیسے تو کبھی منشی کی فیس کا بہانہ بنا کر مال اینٹھ سکیں اور یہاں تو پی ٹی آئی کی پکی پکائی دیگ وکلاء کومل گئی ہے وہ اسے کیوں چھوڑیں گے ۔
تو صاحبو ! جیسے جیسے عمران خان کی اسیری طوالت پکڑتی جائے گی اختلافات زور پکڑتے جائیں گے کہیں فارورڈ بلاک سر اٹھائے گا تو کہیں عدم اعتماد، صحیح ہے جس جماعت کے نمائندوں کو ایک دوسرے پر ہی اعتماد نا ہو اس کا ٹوٹ کر بکھر جانا ہی بنتا ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر