ویب ڈیسک: گزشتہ کئی ماہ سے ملک بھر میں صارفین کو انٹرنیٹ کی سست رفتار اور بار بار انٹرنیٹ منقطع ہونے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حکومت کیجانب سے ’ویب مینجمنٹ سسٹم‘ کی اپ ڈیٹ اور پاکستان کو باقی دنیا سے جوڑنے والی زیر سمندر کیبل میں خرابی کے علاوہ وی پی این کے استعمال کو بھی انٹرنیٹ کی سست روی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا چکا ہے۔
وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے اب اپنے تازہ بیان میں انٹرنیٹ کے مسائل کا ذمہ دار انفرااسٹرکچر کی رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کی کمی کو بھی ٹھہرا دیا۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران شزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ انٹرنیٹ میں خلل ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور لوگوں نے محدود معلومات کی وجہ سے ’فائر وال‘ یا ’ویب مینجمنٹ سسٹم‘ کو مورد الزام ٹھہرا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دستیاب انٹرنیٹ اسپیکٹرم ملک کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے، جس کی وجہ سے انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے، تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ 5 جی انٹرنیٹ کے رول آؤٹ سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔
شزا فاطمہ خواجہ نے بتایا کہ 'ملک میں طلب اور رسد کا فرق ہے'، ساتھ ہی انہوں نے اعتراف کیا کہ کچھ ساختی اور سیاسی وجوہات بھی ہیں، جو انٹرنیٹ میں خلل کا باعث بن رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا پورا انٹرنیٹ انفراسٹرکچر صرف 274 میگا ہرٹز پر کام کر رہا ہے، اور قانونی چیلنجوں کی وجہ سے توسیع میں تاخیر ہوئی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو حالیہ دنوں میں بجلی کی بھاری قیمتوں کی وجہ سے مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ بجلی کی بندش کے دوران جنریٹرز پر ٹیلی کام ٹاورز چلانا کوئی قابل عمل حل نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کے بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن بھی حالیہ برسوں میں لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) پر پابندیوں سے متاثر ہوئی ہے، جوکہ درآمد کے لیے ناگزیر ہے۔
فائر وال کی تنصیب اور صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے سوال کے جواب میں شزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ یہ اقدمات سائبر سیکیورٹی کے سنگین خطرے کی وجہ سے لازمی ہیں، جہاں تک آزادی اظہار کا تعلق ہے، پاکستان میں ہر قسم کا سیاسی مواد روزانہ اپ لوڈ کیا جا رہا ہے، اور اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔