سٹی42: بدھ کے روز حزب اللہ نے اسرائیل کے وسطی علاقہ میں واقع دارالحکومت تل ابیب پر جنوبی لبنان سے میزائل فائر کیا جو تل ابیب کے آسمان پر پہنچ کر انٹرسیپٹ تو ہو گیا لیکن اسرائیل کے لئے ایک بار پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ حزب اللہ کی راکٹ اور میزائل لانچ کرنے والی دیسیلیٹیز پر سینکڑوں حملے کرنے کے باوجود اس کی کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت برقرار ہے۔
گزشتہ سال سات اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے حزب اللہ اسرائیل جنگ بھی جاری ہے، اس جنگ کے دوران غزب اللہ نے ہزاروں راکٹ اسرائیل پر چلائے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ حزب اللہ نے بیلسٹک میزائل حملے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ میزائل تل ابیب تک پہنچ بھی گیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارہ بی بی سی نے تل ابیب پر حزب اللہ کے میزائل حملہ کے بعد اپنے مشرق وسطیٰ کے نمائندہ ہیوگو بشیکا کا ایک بلاگ شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ بے شک کمزور تو ہو گئی ہے لیکن وہ ابھی بھی ایک خطرہ ہے۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے پے در پے حملوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ، ان حملوں نےحزب اللہ کی کام کرنے کی صلاحیت کو شدید نقصان تو پہنچایا ہے لیکن اس کی لڑنے کی صلاحیت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتےپہلے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں نے حزب اللہ کے مواصلاتی نظام کو کافی نقصان پہنچایا اور پھر جنوبی بیروت میں اس کے مضبوط گڑھ پر ایک فضائی حملے نے گروپ کے مرکزی لڑاکا یونٹ رضوان فورس کی چین آف کمانڈ کو تقریباً ختم ہی کر دیا۔
اور پھر سوموار کے روز شروع ہونے والے فضائی حملوں میں اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کے راکٹ لانچروں اور ہتھیاروں کے ذخیروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لبنان کے وزیرِ صحت کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں میں اب تک ساڑھے 500 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بہت سے شہری بھی شامل ہیں۔
قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اسرائیل شاید جنوبی لبنان پر زمینی حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ حزب اللہ کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر سکے اور اس کے جنگجوؤں کو اسرائیل لبنان سرحد سے دور دھکیل کر ایک محفوظ زون قائم کر سکے۔ ان قیاس آرائیوں کے دوران حزب اللہ اب بھی جوابی حملے جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
ایک ہفتہ کے دوران بھاری نقصانات اٹھانے کے بعد حزب اللہ نے کوئی بڑا جوابی اقدام نہیں کیا تو اس کی وجہ غالباً اپنے وسائل کو ہوائی حملوں سے بچا کر بین الاقوامی دباؤ بڑھنے کا انتظار کرنے کی پالیسی ہے۔
اس عرصہ کے دوران حزب اللہ کا سرپرست سمجھے جانے والے ایران کی جانب سے عمومی خاموشی رہی لیکن آخر کار خامنہ ای کا یہ بیان آ گیا کہ حزب اللہ کے کارکنوں کے جانی نقصانات سے اس تنظیم کا کچھ نہیں بگڑے گا۔
جنوبی لبنان کے فضائی حملوں کے خطرہ میں گھرے ہوئے دیہات اور قصبوں سے ہزاروں افراد اب بھی محفوظ مقامات کی تلاش میں شمال کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔