ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی گاڑی پر حملہ، تین فوجی، دو غیر فوجی مارے گئے

Indian Held Kashmir, ambush attack on Indian Army's vehicle
کیپشن: سری نگر، جموں و کشمیر میں 25 اکتوبر 2024 کو ہندوستانی سیکورٹی اہلکار ایک سڑک پر پہرہ دے رہے ہیں
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: بھارت کے قبضے میں لاکھوں فوجی بوٹوں تلے کچلے گئے کشمیر میں ایک بار پھر عسکریت نے سر اٹھا لیا،  مشتبہ عسکریت پسندوں نے قابض فوج کی ایک گاڑی پر گھات لگا کر حملہ کیا اور تین فوجیوں سمیت پانچ افراد کو ہلاک کر دیا،  بھارتی حکام نے جمعہ کو بتاہا کہ مسلح افراد نے متنازعہ علاقے میں سات تعمیراتی کارکنوں کو ہلاک کرنے کے چند دن بعد براہ راست فوج کی گاڑی پر حملہ کر دیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جن مین سے تین فوجی تھے۔

کشمیر 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہے۔ 2019 تک بھارت کشمیے کے جس ٹکڑے پر قابض رہا اس کی متنازعہ حیثیت سے سیاسی  فورمز پر انکار کرتا تھا لیکن خود بھارت کے آئین مین اس علاقہ کو نیم خود مختار درجہ حاصل تھا جو اس کے متنازعہ ہونے کی نشاندہی کرتا تھا۔ 2019 مین بھارت کی ہندوتوا پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی ھکومت نے اپنی عددی اکثریت کے بل پر بھارت کے آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کو اٹھا کر دسٹ بِن میں پھینک دیا تھا۔ اس عمل کے ساتھ ہی نریندر مودی کی حکومت نے  مقبوضی کشمیر میں عسکریت پسندوں اور ان کے ساتھ غیر عسکری سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو بری طرح کچلنے کے لئے بڑی مہم چلائی جس مین سینکڑوں مزید کشمیری مارے گئے اور سینکڑوں ہی گرفتار کر لئے گئے۔  کشمیر کو ایک طرح سے عسکریت پسندوں سے خالی کرنے کے بعد اس اکتوبر میں بھارتی وفاق نے ریاستی اسمبلی کے الیکشن کروائے تو اس مین بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست ہوئی اور لبرل کمشیریوں کی قدیم جماعت نیشنل کانفرنس کو اکثریت مل گئی جس نے لبرل وفاقی جماعت کانگرس کے ساتھ مل کر ریاست میں حکومت بنا لی۔ 

بھارت کے قبضہ میں سِسک رہے کشمیر میں ریاستی الیکشن کے بعد حکومت نے انضمامِ کار سنبھال لی ہے تاہم ریاست پر فوج کا اب بھی پہلے کی طرح قبضہ ہے۔ اس قبضہ کے دوران فوج پر حملہ کا یہ پہلا واقعہ سامنے آیا ہے جس نے  سری نکر میں ریاستی حکومت کے ایوانوں سے لے کر نئی دہلی تک سراسیمگی اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔  اور دونوں ہی اس علاقے پر مکمل دعویٰ کرتے ہیں۔

ہندوستان کی فوج نے جمعرات کو دیر گئے "دہشت گردوں" کے ساتھ فائرنگ کے ایک مختصر تبادلے کی تصدیق کی ہے۔ یہ حملہ گلمرگ کے آس پاس ہوا ، جو کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ تقسیم کرنے والی بھاری فوجی نگرانی میں رہنے والی غیر سرکاری سلائن آف کنٹرول کے قریب ہے۔

ہندوستان کی چنار کور آرمی یونٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر جمعہ کو ایک پوسٹ میں "گہری تعزیت" اور "سوگوار خاندانوں کے ساتھ یکجہتی" کا اظہار کرتے ہوئے دو مقتول فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس حملے میں زخمی ہونے والا ایک اور فوجی جمعہ کو ملٹری ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

ایک مقامی حکومتی اہلکار نے غیر ملکی خبر رساں ادارہ کو بتایا کہ فوج میں کام کرنے والے دو سویلین پورٹر بھی مارے گئے۔

یہ پورٹر فوجیوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے جب ان کی گاڑی پر "عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر حملہ کیا"۔

اے ایف پی کے ایک صحافی نے دیکھا کہ ان سب  کی لاشیں آخری رسومات کے لیے ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئیں۔

خطے کے گورنر منوج سنہا نے سرینگر کے مرکزی شہر میں فوجی ہیڈکوارٹر میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بھارتی قومی پرچم میں لپٹے تین تابوتوں پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے لیے اعلیٰ فوجی افسران کے ساتھ  شرکت کی۔

سنہا نے X پر پوسٹ کیا، "بہادر فوجیوں اور ڈیفنس پورٹرز کو خراج عقیدت !

نئی دہلی کے زیر کنٹرول کشمیر کے اس حصے میں بھارت کے تقریباً 500,000 فوجی مستقل تعینات ہیں۔

بھارت مخالف آزادی پسند کشمیری گروپ کئی دہائیوں سے کشمیر کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہوئے بغاوت کر رہے ہیں۔

اس تنازعے میں اب تک دسیوں ہزار فوجی، شہری اور عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔

نئی دہلی باقاعدگی سے پاکستان پر کشمیر میں حملے شروع کرنے میں باغیوں کی حمایت کا الزام لگاتا ہے، اسلام آباد اس الزام کی تردید کرتا ہے تاہم آج کے  حملے کے بعد سے بھارتی فوج یا حکومت کی جانب سے اب تک کسی کی طرف انگلی نہیں اٹھائی گئی نہ ہی کسی تنظیم یا گروپ نے اس واقعہ کے متعلق کوئی دعویٰ کیا ہے۔ ۔

جمعرات کی جھڑپ اس وقت ہوئی ہے جب بندوق برداروں نے وادی کشمیر کو چین کی سرحد سے متصل ہمالیائی علاقے لداخ سے جوڑنے والی اسٹریٹجک سرنگ کی تعمیر کے مقام کے قریب مزدور کیمپ کے اندر سات مزدوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ حالیہ حملے "سنگین تشویش کا معاملہ" ہیں۔