تحریر،عامر رضا خان :موسم بدل رہا ہے، فضا تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے ، اسلام آباد میں یہ موسم جلد اپنا رنگ دکھا رہا ہے، اڈیالہ کے اندر بھی بہار کی نوید ہے ،بشریٰ بی بی کے بعد علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی بھی ضمانتیں ہو گئی ہیں، اگر ڈیل ، ڈھیل ، یا میچ فکسنگ کی خبروں کی آگ ہے تو کہیں نا کہیں اس کا دھواں بھی ہے ،کہنے والے اسے نورا کُشتی ، فکس میچ اور ملی بھگت کہہ رہے ہیں ، صرف دو روز پہلے تک یہ تاثر عام تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے برے دن مزید لمبے ہونے جارہے ہیں پے در پے احتجاج کے اعلان ناکام ہوئے ملاقاتوں پر پابندی لگی اور 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی جس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس نا بننے اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد تو قوی امکان تھا کہ مزید مشکلات بانی کے راستے میں آئیں گی، ٹی وی پر بیٹھے تجزیہ نگار اور سیاسی اداکار سب ایک ہی راگ الاپ رہے تھے کہ بانی کے لیے اب کوئی معافی نہیں، فیصلے میرٹ پر ہوئے تو سانحہ نومئی کا کوئی شخص نہیں بچے گا ،بانی کو مزید مشکل حالات دیکھنے ہوں گے ،گنڈا پوری نعرے اور دعوے بھی ٹھس ہوتے نظر آرہے تھے لیکن پھر ۔۔۔۔
لیکن پھر یکا یک کیا ہوا ایک ہی رات میں جیسے دنیا ہی بدل گئی، جہاں ببول اگائے جارہے تھے وہاں گل و گلزار کی خبریں آنا شروع ہوگئیں، وہ تجزیہ کار اور سیاسی اداکار جو ٹیلی ویژنوں کی زینت بنے رہتے ہیں، ایک بار پھر پینترا بدل کر سامنے آئے ڈیل ڈیل ، ڈھیل ڈھیل کی آوازیں بلند کرنے لگے ان میں وہ آوازیں بھی شامل ہوگئیں جو پہلے بانی پی ٹی آئی کے ہر جرم کو سزائے موت سے کم کی سزا کا تصور بھی نہیں کر پارہے تھے، وہ بھی ڈیل کا راگ الاپ رہے ہیں، سب سے زیادہ شور مچانے والوں میں سرفہرست نام اسٹیبلشمنٹ کے اپنے بندے سمجھے جانے والے (یہ تاثر عام ہے ) سینیٹر فیصل ووڈا ہیں، انہوں نے بشریٰ بی بی کی رہائی کو اس فکس میچ کی طرح پوٹرے کیا کہ جیسے سب کچھ ایک سکرپٹ کے تحت ہورہا ہے، انہوں نے ایک چینل پر بیٹھ کر یہ بھی بتایا کہ بشریٰ بی بی کی رہائی سے ایک ہفتے قبل بنی گالہ کا رنگ و روغن بھی کرایا گیا ہے یہ خبر ضرور رنگ پینٹ کرنے والے کاریگر نے ان تک پہنچائی ہوگی یہ میرا گمان ہے لیکن عام تاثر یہی ہے کہ عمران خان نے ڈیل کے لیے کبھی کسی سیاسی جماعت یا حکومت کی بات نہیں کی وہ تیسری قوت کو ہی پکارا کرتے ہیں، دھرنے کے امپائر سے لیکر ، باجوہ ابو تک اور پھر نیوٹرل والی غیر منطقی منطق تک وہ ایک ہی گھر یا یوں کہہ لیں در کے سوالی رہے ہیں اور اگر فیصل ووڈا کہہ رہے ہیں تو صاف ظاہر اس سے یہ تاثر تو تقویت پکڑے گا کہ فوج اور عمران میں فاصلے کم ہوئے ہیں ۔
بشریٰ بی بی کو ضمانت پر رہائی ملی ہے لیکن کیا کیا جائے ضمانت کو بھی میڈیا رہائی چلاتا ہے اور گمراہی پھیلاتا ہے کیس تو ابھی باقی ہے، ضمانت ملی ہے اور جس انصاف پسند جج نے یہ ضمانت دی ہے وہ عمر گوہر ایوب رہنما پی ٹی آئی کے پھوپھی زاد ، پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر آمر ایوب خان کے نواسے ہیں اُن کا فیصلہ ظاہر ہے انصاف پر مبنی ہی ہوگا لیکن چند ناہنجار افراد انصاف کی تحریک کا فیصلہ قرار دیتے ہیں ، کوئی فیصل ووڈا سے پوچھے کے اُن کا سورس کون ہے کہ ڈیل ہوگئی ہے یا ہو رہی ہے۔ فیصل ووڈا پیر علی مردان پیر پگاڑا کا کوئی نیا ورژن ہیں جو ایک ہی واقعہ پر مختلف اوقات میں مختلف پیش گوائیاں کرتے اور جو بھی صحیع ہوتی اسے اپنے کھاتے میں ڈال لیتے ۔
اب خبریں نکالی جارہی ہیں کہ عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکی کانگریس کے 62 ارکان نے صدر بائیڈن کو لکھے گئے خط میں عمران خان اور پاکستان میں دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، حامد میر نے بھی کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید سیاسی قیدی (یہاں مراد سانحہ نو مئی کے دہشت گرد ہیں جنہیں سیاسی قیدی کہا جاتا ہے ) کو رہا کیا جائے میرا خیال ہے کہ وائس آف امریکہ کہ اس خبر کے بعد اب تجزیہ نگار یہی کہیں گے جو کرا رہا ہے امریکہ کرا رہا ہے ۔
اب آئیں قاضی فائز عیسیٰ کی روانگی پر ہونے والے عدالتی فُل کورٹ ریفرنس کی جس میں انصاف پسند ججز نے سید منصور علی شاہ کی تقلید میں شرکت نہیں کی، جسٹس منصور علی شاہ نے شرکت نا کرنے کی وجوہات پر مبنی خط بھی تحریر کیا جس میں قاضی فائز عیسیٰ کو آڑے ہاتھوں لیا، یہاں تک کہا کہ انہوں نے عدلیہ کا دفاع نہیں کیا وہ عدلیہ پر پڑنے والے بیرونی دباؤ کو دیکھ کر شتر مرغ بن گئے اور منہ ریت میں دے دیا ، منصور علی شاہ نے یہ بھی لکھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیئر ویل ریفرنس میں شرکت نہیں کی تھی کہ اُنہوں نے بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جس سے انصاف کو نقصان پہنچا، خط لمبا اور مندرجات طویل ہیں جسے یہاں درج کرنے سے قاضی فائز عیسیٰ جیسے بلند کردار جج پر گندگی کے چھینٹے نہیں اڑائے جا سکتے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے سو موٹو اور بنچز کی تشکیل کے آمرانہ قانون کو بدلا، پارلیمانی طرز حکومت کی روح کے مطابق نظام انصاف کو چلانے دیا نا زیادہ مراعات لین نا لینے دیں، یہاں تک کہ سرکاری فیئر ویل لنچ بھی سرکاری پیسوں سے منعقد کرنے کا انکار کیا۔ انہوں نے ایسے فیصلے کیے جو بولتے ہیں اور تاریخ انہیں اُن کے والد قاضی محمد عیسیٰ کی طرح بلند مرتبہ دے گی ۔