سٹی42: قدیم شاہراہ ریشم پر دو گمشدہ شہر دریافت ہو گئے ہیں جن میں قلعے، پیچیدہ عمارات اور سڑکیں موجود پائی گئی ہیں۔ ان دو گمشدہ شہروں کی دریافت سے قدیم شاہراہ ریشم کے کئی تہذیبوں کو جوڑنے کے تصور کو مزید تقویت ملی ہے اور مزید گمشدہ آثار کے کھوجنے کے راستے بھی کھل گئے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ نے ازبکستان کے سر سبز پہاڑی میدانوں میں زیرزمین صدیوں دبے 2 شہروں کو دریافت کیا ہے۔
آثاریات کے ماہرین کو یقین ہے کہ یہ شہر کسی زمانے میں قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع تھے۔
نیچر جرنل میں شائع ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ان شہروں کو لیڈار ٹیکنالوجی اور دیگر جدید سکیننگ مشینوں کے ذریعے تلاش کیا گیا جو سبزے کے نیچے دبے ہوئے اسٹرکچرز کو شناخت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
آثاریات کے ماہرین کو اس علاقہ میں زمین میں صدیوں سے دبے ہوئے ایسے بڑے شہروں کی دریافت کی کوئی توقع نہیں تھی لیکن ان کے پاس موجود جدید آلات نے وہ کر دکھایا جو اب تک ناقابلِ یقین تھا۔ انہوں نے 2 ایسی بڑی آبادیوں کو دریافت کیا جہاں قلعے، پیچیدہ عمارات اور سڑکوں وغیرہ ک جیسے سٹرکچرز کے آثار ملے ہیں۔ یہ سٹرکچرز قدیم زمانہ کے ترقی یافتہ شہروں کی نشاندہی کر رہے تھے۔سطح سمندر سے 2 ہزار میٹر سے زائد بلندی پر اتنے مصروف قدیم شہروں کی دریافت آثاریات کے ماہرین کیلئے اب تک حیران کن ہے۔
ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں کہ ان شہروں میں رہنے والوں کی زندگی کافی سخت ہوگی خاص طور پر موسم سرما کے مہینوں میں، لیکن یہ ہمارا محض تصور ہے، ممکن ہے بعد میں یہ بھی پتہ چل جائے کہ وہ لوگ سردی کا موسم کیسی سہولت کے ساتھ گزارتے تھے۔
سردی سے ہم انسانوں کے خوفزدہ رہنے کی ہی وجہ سے آج بھی دنیا کی محض 3 فیصد آبادی اتنی زیادہ بلندی پر مقیم ہے اور ایسے زیادہ تر افراد سطح مرتفع تبت اور Andes میں رہ رہے ہیں۔
آثاریات کے ماہرین نے بتایا ہے کہ جن علاقوں میں یہ گمشدہ شہر دریافت ہوئے ہیں یہاں کا ماحول واقعی مختلف ہے، یہاں گرمیوں میں برفباری ہو رہی ہ ہوتی ہے اور سردی ہوتی ہے۔
تحقیقی ٹیم کی جانب سے ان دونوں شہروں کو انسانوں کی آنکھوں کے سامنے لانے کے لئے تیزی کے ساتھ کھدائی کی جا رہی ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان شہروں کو کس نے بنایا اور ان شہروں کے مکین یہاں کیسے رہ رہے تھے، کیا کھاتے تھے اور سردی سے کیسے بچتے تھے، ان کا زریعہِ روزگار کیا رہا ہو گا اور وہ نسبتاً معتدل موسم والے علاقوں کی بجائے یہاں برفزار میں ہی کیوں رہتے تھے۔ ان تمام سوالوں کے جوابات سامنے آنے پر ہمیں اپنی آنکھ سے اوجھل ہو چکے قدیم برفانی زمانوں مین انسانوں اور زندگی کی دیگر انواع کے سروائیول کے متعلق اہم سوالات کے جواب تلاش کرنے میں یقیناً مدد ملے گی ہی، اس کے ساتھ یہ سمجھنا زیادہ سود مند ہو گا کہ ہم ماضی قریب میں کن کن ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنا جانتے تھے۔
وسطی ایشیا کی پہاڑیاں اور ڈھلانیں ہزاروں برسوں سے خانہ بدوش قبائل کا گھر ہیں اور گھوڑوں پر طویل سفر کرنے والے اِن اَن تھک خانہ بدوشوں نے دنیا کے کئی رہنے کے لئے زیادہ آسان علاقوں میں پہنچ کر وہاں اپنی سلطنتیں بنائیں۔
اب تک عام خیال یہی تھا کہ بلند برفانی نیم میدانی علاقوں کے ان خانہ بدوشوں کی زندگی بظاہر جانوروں کو یہاں سے وہاں لے جانتے ہوئے زندہ رہنے کی جدوجہد کرتےگزرتی تھی لیکن اب ان کے علاقوں میں سامنے آ رہے دونوں قدیم شہر اتنے بڑے ہیں کہ انہیں تجارتی بستیاں یا قافلوں کےرکنے کے مقامات تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہ سوچنا پڑے گا کہ بظاہر خانہ بدوشی کی زبدگی گزارنے والے اجڈ دکھائی دینے والے قبائل کے علاقے بھی کبھی زیادہ تہذیب یافتہ رہے ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان شہروں کو کیوں قائم کیا گیا اور ایسا کس نے کیا۔
ریسرچرز کو ایک شبہ یہ ہے کہ یہاں موجود لوہے کو نکالنے کے لیے ان شہروں کو تعمیر کیا گیا ہوگا اور ممکن ہے کہ ان شہروں مین رہنے والے خاص مقاصد کے لئے نسبتاً کم شمکل علاقوں سے یہاں آ کر آباد ہوئے ہوں۔
ان دو شہروں کو امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے ازبکستان کے نیشنل سینٹر آف آرکیالوجی کے ساتھ مل کر دریافت کیا ہے اور دریافت کا یہ سفر ہنوز نامکمل ہے۔ ماہرین اس پروجیکٹ پر 2011 سے کام کر رہے تھے۔
2011 میں ایک شہر تاشبُ لک Tashbulak کو دریافت کیا گیا تھا جبکہ 2015 میں دوسرے اور زیادہ بڑے شہر تگنبُ لک Tugunbulak کے آثار سامنے آئے تھے۔
لیدار سروے کے انکشافات
لیدار سروے نے انکشاف کیا ہے کہ ازبکستان کے پہاڑوں میں تقریباً تین میل کے فاصلے پر قرون وسطی کے دو قصبے آخرکار بڑے شہری مرکز ہیں، نیوز ویک کی ایک رپورٹ کے مطابق۔ سینٹ لوئس میں واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ مائیکل فریچیٹی لوئس نے کہا کہ ٹشبولک اور تگنبولک کے نام سے مشہور قصبے سطح سمندر سے تقریباً 6,500 اور 7,200 فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ تشبولک 30 سے 40 ایکڑ پر محیط تھا اور یہ آٹھویں اور گیارہویں صدی کے درمیان موجود تھا، جب کہ تگنبولک چھٹی اور گیارہویں صدی کے درمیان موجود تھا۔ ریموٹ سینسنگ کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے، محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے 300 سے زائد ڈھانچوں کا پتہ لگایا، جن میں ٹگنبولک میں پتھر اور مٹی کی اینٹوں کی دیواروں سے گھرا ہوا ایک مرکزی قلعہ، جس میں ایک ریج لائن کے ساتھ دیواروں سے جڑے واچ ٹاورز، ٹیرسنگ کے نشانات شامل ہیں۔
اس ریسرچ سے جڑے محقق فریچیٹی نے بتایا، "جب تک تاشبولک چل رہا ہے، میں ان شہروں کو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تصور کرتا ہوں، اس طرح ایک وسیع شہری نیٹ ورک کا حصہ۔ " فریچیٹی نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ یہ شہری علاقہ ممکنہ طور پر بحیرہ روم اور چین کو ملانے والی شاہراہ ریشم کے نام سے جانے والے تجارتی راستے پر ایک پڑاؤ تھا۔ نیچر جرنل میں اس تحقیق کے بارے میں اصل علمی مضمون کا لنک یہاں موجود ہے ۔ تاجکستان کے ایک ایسے شہر کے بارے میں پڑھنے کے لیے جو پانچویں سے آٹھویں صدی عیسوی تک "ایک شاہراہ ریشم" پر پروان چڑھا، آرکیالوجی میگزین کی یہ دلچسپ تحریر تشبولک اور تگنبولک کے بارے میں مزید جاننے کے خواشہندوں شاہراہ ریشم سے متعلق دوسرے قدیم آثار کی دریافت کے متعلق کافی کچھ سکھا سکتی ہے ۔
آثاریات کے ماہرین نے دونوں شہروں کا نقشہ 2022 سے تیار کرنا شروع کیا تھا جس کے لیے لیڈار ٹیکنالوجی سے لیس ڈرونز کی مدد لی گئی اس کوشش کے دوران صرف ایک شہر میں ہی 300 سے زائد منفرد اسٹرکچرز کےشواہد ملے جن سے اس شہر کی وسعت اور ترقی کے درجہ کا ادراک ہوا۔
اندازہ ہے کہ یہ شہر چھٹی سے 11 صدی عیسوی کے درمیان آباد تھے۔
یہ واضح نہیں کہ یہ شہر ویران کیوں ہوگئے مگر ماہرین کو توقع ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیقی کام سے سوالات کے جوابات سامنے آجائیں گے۔