قاسم ۔سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر، کوڑے دانوں بھر گئے، گرین بیلٹس کے بجائے کچرے کے انبار، یہ ہے نئے لاہور کی نئی شناخت، وزیراعلیٰ پنجاب نے آنکھیں بند کرلیں،عوام جائیں تو کہاں جائیں؟ کوئی سننے والا نہیں۔
صاف ستھرے اور گندگی سے پاک ماحول کا خواب پورا ہونا شاید اہل لاہور کے قسمت میں نہیں، جابجا گندگی کے ڈھیر اور ان پر بھنبھناتی مکھیاں نہ صرف شہر کو بدصورت بنا رہی ہیں بلکہ یہ بزدار حکومت کی گڈگورنس کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں ،عوام کو تبدیلی کے سنہرے خواب دکھانے والے اب عوام کیلئے مسائل کے انبار لگارہے ہیں۔
والٹن روڈ جیسے مرکزی علاقے میں کوڑے کے ڈھیر راہگیروں کا منہ چڑا رہے ہیں، علاقے کے لوگوں کے لیے تو سانس لینا بھی مشکل ہے، شہری جائیں تو کہاں جائیں، شکایات کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
عوامی کالونی کا پارک تو کئی دہائیوں سے صفائی سے محروم ہے،، جب سے یہ پارک بنا ہے بچوں کو تو کھیلنا نصیب نہیں ہوا لیکن کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں کی افزائش کا یہاں خوب انتظام ہے،، تو پھر ڈینگی مچھر کیوں نہ پیدا ہو، جہاں گندگی ہوگی وہاں بیماریاں تو ہونگی۔
ٹاؤن شپ اور گرین ٹاون میں گندے نالوں میں اتنا کوڑا ڈالا جاچکا ہے کہ اب اس میں پانی کا بہنا ممکن نہیں رہا،کوڑا اگر کسی طرح کچرے دانوں تک پہنچ بھی گیا تو کوئی اسے اٹھانے کیلئے موجود نہیں، سبھی حکومت کی عدم توجہی کے باعث موج میں ہیں۔
میاں میر کے علاقے میں بھی گندگی کے ڈھیر عوام کا مقدر بن گئے ہیں، عوام تبدیلی سرکار کے کھوکھلے نعروں کے خلاف پھٹ پڑے اور اس حوالے سے اقدامات کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
قائداعظم انڈسٹریل سٹیٹ میں بھی کوڑا اور گندگی کا راج، تعفن سے سانس لینا محال ہوگیا ہے، اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ گندگی کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں، کئی کئی روز کوڑا پڑا رہتا ہے کوئی اٹھانے نہیں آتا۔
بے حس سرکاری اداروں نے آنکھیں بند کرلی ہیں جبکہ شہری ادارے اپنے بے اختیار ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے گندگی کے یہ ڈھیر ہرروز تحفوں کی صورت میں اہل لاہور کو ملتے چلے جارہے ہیں،، ایسی صورتحال میں شہری پریشانی میں مبتلا ہیں، مگر ان کا کوئی والی وارث نہیں۔۔