ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بانی کی گوریلا جنگ

تحریر: وسیم عظمت

November ۲۴ protest, PTI protest, Imran Khan, Adiala Jail, Shoaib Shaheeen, Ali Amin Gandapur, city42, Waseem Azmet
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 پاکستان بھر سے لوگ اکٹھے کر کے وفاقی دارالحکومت پر  دھاوا بولنے میں ناکام ہونے کے بعد پی ٹی آئی کےرہنما نے معصومیت سے کہا ، " پورے پاکستان کو انھوں نے بند کردیا، ایسا لگ رہا ہے پاکستان اور بھارت کی جنگ ہورہی ہے۔"

پاکستان کے لاکھوں محنت کشوں اور سکول، کالج جانے والے سٹوڈنٹس کی زندگیاں کئی روز سے عذاب کر دینے کے بعد 24 نومبر کی شب ایک نیوز چینل پر  باتیں بگھارتے ہوئے شعیب شاہین نے یہ  "نیا نیریٹیو" فلوٹ کیا ،  "نہتے لوگ ہیں, ان کے مقابلے پر اسلحہ سے لیس اہلکار موجود ہیں، پولیس، ہیلی کاپٹر کے ذریعے مظاہرے ہورہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کسی پارٹی کا احتجاج نہیں اٹامک وار شروع ہوگئی ہے۔" 

شعیب شاہین نے مزید کہا، " ان سب کے باوجود ہمارے مختلف جگہوں پر مظاہرے ہوئے ہیں، لوگ نکل پڑے ہیں، سندھ سے پرسوں سے لوگ نکل پڑے ہیں۔"

انھوں نے کہا, " حلیم عادل شیخ پنجاب کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں،میں پانچ منٹ پہلے گھر پہنچا ہوں، احتجاج میں موجود تھا، ہمارے دوست اسلام آباد پہنچیں گے تو  ہم ان کا ساتھ دیں گے۔"

ایک طرف شعیب شاہین اور ان جیسے کئی درجن دوسرے  نیوز میڈیا سے سوشل پلیٹ فارمز تک ہر دستیاب جگہ پر ذہنوں کو آلودہ کر دینے والےبھاشن  سنا رہے ہیں تو دوسری طرف یورپ امریکہ میں بانی کے شاگرد پاکستان کو مسلسل بدنام کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس تماشے سے بہرحال کہیں کم اذیت ناک ہے جو خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ  کا چابک لے کر ریاست کی پیٹھ پر سوار ذہنی مریض علی امین گنڈا  خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے، بے دست و پا "ملکِ خدا داد" کے دارالحکومت کو آنے والی سڑک پر کر رہا ہے۔

شعیب شاہین کی پاکستان بھارت ایٹمی جنگ کی پھبتی کا پس منظر، بانی کی" کرو یا مرو " دھمکی

کچھ روز پہلے اڈیالہ کی جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی نے اچانک اپنے ساتھیوں سے کہا کہ  وہ"ڈو آر ڈائی احتجاج" کی" فائنل کال"  دے رہے ہیں، اس احتجاج کا مقصد بانی کو جیل سے رہا کروانا بتایا اور حکم دیا کہ ان کی جماعت کا ہر عہدیدار بندے لے کر 24 نومبر کو اسلام آباد پہنچے اور دھرنا دے۔ جو عہدیدار بندے لے کر اسلام آباد نہیں جائے گا یا 24 نومبر کو "ڈو آر ڈائی احتجاج" سے پہلے ہی گرفتار ہو جائے گا اسے پارٹی کے عہدہ سے الگ کر دیا جائے گا۔

بانی کی اس ہدایت پر پی ٹی آئی کے لیڈروں نے کئی روز تک "ڈو آر ڈائی احتجاج"  کی"فائنل کال" کو لے کر اپنی پارٹی کے زیریں عہدیداروں، سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو دھمکیاں دے دے کر خوفزدہ کیا کہ اگر انہوں نے بانی کے حکم کی تعمیل نہ کی تو انہیں نکال دیا جائے گا۔

بائیلو رشیا کے صدر اور تاجروں، صنعتکاروں کی آمد کے ہی وقت فساد

یہ "ڈو آر ڈائی احتجاج" 24 نومبر کو  شروع کیا جانا تھا اور عین اسی تاریخ کو پاکستان کے دوست ملک بیلا رس سے تاجروں، صنعتکاروں کا ایک وفد اسلام آباد آ رہا تھا جس کے بعد 25 تاریخ کو یعنی آج بیلا رس کے صدر کو بھی پاکستان کے دورہ پر آنا ہے۔ اس دورہ کا مقصد باہمی تجارت اور  سٹریٹیگ نوعیت کے  قریبی تعلقات میں وہ پیش رفت ہے جو اب تک کبھی نہیں ہوئی تھی۔ عین اس دورہ کے موقع پر اسلام آباد پر "ڈو آر ڈائی احتجاج" کے نام سے جو دھاوا بولنے کا حکم اڈیالہ جیل سے جاری ہوا وہ دھاوا کوئی نیا نہیں، خیبر پختونخوا سے کئی بار ایسا دھاواپہلے بھی بولا جا چکا ہے جس کے دوران نہ سرف املاک کا نقصان کیا گیا بلکہ پولیس کے جوانوں کی جانیں تک گئیں اور ہر دھاوے کے دوران ایک دو دن تک عوام کی زندگیاں مختلف نوع کی پابندیوں میں جکڑے جانے کے سبب عذاب بنی رہیں۔ 

پی ٹی آئی کا عام کارکن اور حامی ان دھاووں میں شریک نہیں

پی ٹی آئی کا ایسا ایک بھی دھاوا جیل میں بیٹھے بانی کو  کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکا کیونکہ پاکستان کے کسی بھی علاقہ میں موجود ان کے ھامی ہی ان کے دھاووں میں شریک نہیں ہوئے، حتیٰ کہ خیبر پختونخوا جہاں کا وزیر اعلیٰ کئی کئی ہفتے حکومت کے تمام ضروری کاموں کو نظر انداز کر کے دھاوے کی تیاری کرتا اور لوگوں کو سرکاری وسائل کے ساتھ اس دھاوے میں شامل کر کے اسلام آباد لانے کی کوشش کرتا ہے، وہاں سے بھی کبھی چار پانچ ہزار سے زیادہ عام شہری اس سرگرمی میں شامل نہیں ہوئے۔ گزشتہ دھاوے کے دوران اسلام ااباد پولیس کے اہلکار مارے گئے اور خیبر پختونخوا پولیس کے کئی اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس ہو کر دھاوے میں شریک ہو کر فساد کرتے پکڑے گئے۔

اسلام آباد کے تاجر؛ تنگ آمد بجنگ آمد

جب بانی نے نئے دھاوے کے لئے بہت سخت اور دھمکی آمیز زبان میں احکامات دیئے تو اسلام آباد کے دوکاندار 24 نومبر کے متوقع عذاب سے بچنے کے لئے پہلے ہی اسلام آباد ہائی وکرٹ چلے گئے۔

اسلام آباد کے دوکانداروں کی ایک پیٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا تھا کہ اسلام آباد میں کوئی "احتجاج" کرنے کی اجازت نہیں ہے، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں کسی احتجاج کی درخواست ہی نہیں دی گئی، شہر میں اور صوبہ پنجاب میں سیکشن 144 نافذ کر کے ہر طرح کے اجتماع پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

پختونخوا کے لاوارث عوام اور سرکاری اہلکار

خیبر پختونخوا میں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں ضلع کرم میں دو  تین دن کے دوران درجنوں افراد قبائلی نوعیت کے تصادم میں مر گئے، قانون نافذ کرنے والے ادارہ کے بارہ جوان چیک پوسٹ پر حملہ کے دوران دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے، عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ ڈیڑھ سن سے ایک لشکر کے ساتھ سڑک پر ہیں اور بضد ہیں کہ ہر صورت میں اسلام ااباد جا کر "احتجاج" کریں گے۔ لاہور سمیت پنجاب بھر میں پختون خوا کے وزیر اعلیٰ کی پیروی میں جتھے لے کر اسلام ااباد پر چڑحائی سے روکنے کے لئے صوبائی حکومت نے شہروں کے درمیان آمد و رفت دو دن سے عملاً مفوج کر ڈالی ہے۔

پنجاب کی حکومت کا اپنا ایجنڈا اور مصروفیات پس پشت

پنجاب کی صوبائی حکومت کو اس مرتبہ وفاقی دارالحکومت پر بانی کے شاگردوں کی چڑھائی روکنے کے لئے دو دن پہلے ہی  اکنامک ایکٹیویٹی اور پبلک لائف کو محدود کر دینے والے سخت اقدامارت کرنا پڑے۔ یہ مناسب انتظامات خواہ عام شہریوں کے لئے اذیت کا ہی باعث بنے لیکن ان کا یہ نتیجہ بہرحال سامنے آیا کہ بارہ کروڑ ستتر لاکھ  آبادی کے پنجاب میں جہاں بانی کے نام کو لاکھوں ووٹ پڑے تھے وہاں 24 نومبر کو  12 سو حامی بھی سڑکوں پر نہیں نکلے، حامی تو کجا، وہ رہنما ہی سڑکوں پر نہیں آئے جنہوں نے حامیوں کو کئی روز تک  پروپیگنڈا کر کے "کرو یا مرو احتجاج" کے لئے اکسایا تھا۔

راولپنڈی اسلام آباد کے ولنریبل شہری اور بچے

اسلام آباد اور راولپنڈی کی انتظامیہ 24 نومبر کو احتجاج اور اجتماع پر پابندی کے باوجود احتجاج کرنے کے لئے جمع ہونے والے درجنوں افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔  آج 25 نومبر کو بھی راولپنڈی اور اسلام آباد کے تمام چھوٹے بڑے، نجی سرکاری تعلیمی ادارے بند ہیں اور لاکھوں سٹوڈنٹس کا عملاً کئی ملین گھنٹے وقت بے سبب برباد ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ  جس پارٹی کی ضد کی وجہ سے ہو رہا ہے وہ اب خود کو روکنے والوں کا تمسخر اڑا رہی ہے اور وفاقی دارالحکومت کو دھاوے سے بچانے کی کوششوں کو پاکستان اور بھارت کی ایٹمی جنگ سے تشبیہہ دے رہی ہے۔ 

کیا یہ واقعی جنگ ہے؟

اگر یہ "جنگ" ہے،  تو اس کی ابتدا جیل میں بیٹھے بانی نے کی ہے اور  اپنے گزشتہ احکامات کی تعمیل کرنے کے لئے کروڑ ہا روپے انویسٹ کرنے والے پارٹی عہدیداروں کو "کرو یا مرو" کی ننگی دھمکی دے کر ان کے لئے اپنی انویسٹمنٹ بچانے اور  حکومت کے لئے اپنی اور ریاست کی رٹ برقرار رکھنے کا سخت چیلنج کھڑا کر دیا - وہ بھی عین اس وقت جب ریاست اور حکومت دونوں کو  کم از کم وفاقی دارالحکومت کی حد تک مکمل امن، سکون اور  آسودہ ماحول کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے ساتھ کاروبار کرنے کے لئے آنے والے بائیلو رشیا کے انویسٹرز، تاجروں، صنعتکاروں کو یہاں پاکستانیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مائل کیا جا سکے۔  عین اسی وقت جنگ مسلط کرنے والے شاطر کو جواب بھی اسی سطح پر دیا جانا چاہئے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں۔

حکومت نے بانی کے گزشتہ کئی دھاووں کے مقابلے کی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر وفاقی دارالحکومت پر دھاوا کرنے والوں کو بہت دور ہی بے بس کر کے قدرے بہتر طریقہ سے دارالھکومت کا دفاع تو کیا ہے ،  اور دھاوا کرنے کی یہ کوشش گزشتہ تمام کوششوں کی نسبت زیادہ بری طرح ناکام تو ہوئی ہے لیکن یہ ناکامی جیل میں بیٹھے شاطر بانی کے لئے نئی نہیں نہ ان کے شاگرد شاطروں کے لئے نئی ہے۔ 

بانی کی گوریلا جنگ

بانی اور اس کے شاگرد تو اس جنگ کو  واقعتاً گوریلا جنگ کی طرح لڑ رہے ہیں اور مسلسل خون بہانے کے بعد بھاگ جانے کی سٹریٹیجی پر عمل کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ پاکستان کے اندر پاکستان کو بے بس کر کے ہنس رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان سے باہر ہر جگہ جہاں وہ موجود ہیں، پاکستان کو غیر جمہوری اور غیر مہذب معاشرہ قرار دینے کے لئے جھوٹ کی آخری حد تک جا رہے ہیں جیسا کہ24 نومبر کو یورپ اور امریکہ مین بہت سی جگہوں پر جھوٹ کی یلغار کر کے کیا گیا۔ 

حکومت کی بے بسی

اس کے جواب میں حکومت کیا کر رہی ہے؛ دہشتگردی کی بدترین پیش قدمی اور معاشی بحران کی بد ترین صورتحال سے نکلنے کی کوششوں کے دوران اس "ڈو آر ڈٓئی احتجاج" کی اضافی مصیبت کے مقابل ،محض دفاع کر کے وقت گزار لینے کو ہی کامیابی تصور کر رہی ہے۔ گویا اس "ڈو آر ڈائی احتجاج" کا حکم دینے والے 24 نومبر اور اس کے بعد کے دو دنوں میں افراتفری پھیلانے میں ناکام ہونے کے بعد از خود خود کو  ڈائیڈ died تصور کر لیں گے اور آئندہ کسی دوست ملک کے مہمانوں کے دورہ کے موقع پر پاکستان کے منہ پر کالک ملنے اور پاکستانیوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے کے لئے نیا دھاوا نہیں بولیں گے۔

قانون کی عمل داری کہاں ہے؟

اگر دھاوا اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی سنگین خلاف ورزی ہے تو دھاوا بولنے کے لئے  پشاور سے لشکر لے کر پنجاب کے اندر گھس آنے والا قانون شکن اب تک خیبر پختونخوا کا وزیر اعلیٰ کیوں ہے۔ بانی کے شعیب شاہین جیسے شاگرد نیوز چینلز پر آ کر  دارالحکومت کو معزز مہمانوں کے استقبال کے دوران پر امن رکھنے اور پہلے سے  ثابت شدہ شر پسندوں کے دھاوے سے بچانے  کی حکمت عملی کا تمسخر اڑانے اور "پاک بھارت ایٹمی جنگ" جیسے غیر ذمہ دارانہ  اور بازاری ٹھٹھے بازی کتنے کے لئے آزاد کیوں ہیں۔ اسلام آباد کے اندر واقع سڑکوں پر تشدد کی نوبت نہ آنا، لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک رواں رہنا بس ایسی ہی کامیابی ہے، "مکھی کو ضرب لگ گئی ہے، جب وہ گھر جا کر پانی پیئے گی تو مر جائے گی۔"