سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک بچہ اپنے گھر کے حالات بتا رہا ہے، اس کے الفاظ میں ایسا درد تھا کہ جیسے پوری کائنات لٹ گئی ہو،اس درد کو ہر بندہ محسوس کرسکتا ہے،کہتا ہے کہ’میرے بابا گارڈ ہیں،20سے 25 ہزار ماہانہ تنخواہ ہے،23 ہزار روپے بجلی کا بل آیا ہے اور 9 ہزار روپے گیس کا۔بائیک بیچی ہے ہم نے۔سارے باہر آئیں اور ہم کیا کرسکتے ہیں‘ ماہانہ آمدنی 25 ہزارروپے جبکہ صرف بجلی اور گیس کا بل 32 ہزار روپے ہے،یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے،جس کو دیکھو بجلی ،گیس کے بلوں کا رونا رو رہا ہے،اب تو نوجوان سب کچھ بیچ کر پاکستان سے بھاگنے کی کوشش میں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
پاکستان میں مہنگائی کے بڑھتے عذاب نے غریب آدمی کی سمجھ اور عقل پر اِس قدر پردے ڈال دیے ہیں کہ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہوگیا ہے،بجلی کے بڑھتے بل خونی بل بنتے جارہے ہیں،حکومت اپنی عیاشیوں کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال رہی ہے،آئے روز بجلی کے فی یونٹ میں اضافہ ہوتا چلا جارہاہے کہ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ غریب طبقے کے پاس بجلی کے بلوں کی ادائیگیوں کیلئے پیسے تک نہیں ہیں ،گوجرانوالہ میں بھی 30 ہزار کے بجلی کے بل نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا، بڑے بھائی غلام مرتضیٰ نے چھوٹے بھائی کو دھمکی دی کہ یا تو بجلی کے بل کے پیسے دو یا پھر گھر سے نکل جاؤ۔ اسی بات پر معاملہ بگڑا اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ ابھی عمر گھر سے باہر نکلا ہی تھا تو اس کا بھائی چھری لے کر اس کے پیچھے بھاگا اور گلی میں جا کر اُس کے گلے پر چھری مار دی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے،بہاولنگر میں بھی میاں بیوی کے درمیان پنکھا چلانے پر جھگڑا ہوا، جہاں شوہر نے اپنی اہلیہ کو تشدد کا نشانہ بنایا،پھر اِسی طرح فیصل آباد میں بھی 27 جولائی 2019 میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا جہاں بجلی کا بل زیادہ آنے پربیٹے نے ماں کو قتل اور باپ کو زخمی کردیا، فیصل آباد میں ہی 10 اکتوبر 2023 کو چھوٹے بھائی نے چھری کے وار کرکے بڑے بھائی کو قتل کردیا،اب یہاں بجلی کے بڑھتے بل لوگوں کی جانوں کو نگل رہے ہیں تو وہیں حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ اُس کو بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر اِس بات کا احساس ہے کہ غریب آدمی کیسے گزارا کر رہا ہوگا۔
بات صرف اس حکومت کی نہیں ماضی میں جو آئی پی پیز سے معاہدے ہوئے ان پر نظر ثانی کون کرے گا؟وہ آئی پی پیز جو مفت کے ڈالرز بٹور رہے ہیں اب یہ جو بجلی بن رہی ہے اِس کی زیادہ تر پروڈکشن آئی پی پیز کر رہے ہیں۔ اور ان کے معاہدے میں یہ لکھا ہے کہ وہ اتنی بڑی سرمایہ کاری اس لیے کر رہے ہیں کہ حکومت ان سے بجلی خریدے گی۔ حکومت اگر ان سے بجلی نہیں بھی لیتی تو اِن کی پیدوار کی کیپیسٹی کی 80 فیصد ادائیگی حکومت کو ہر صورت کرنا ہو گی۔اگر ایک آئی پی پی 100 میگا واٹ بجلی بنا رہا ہے اور حکومت اس سے بجلی نہیں خرید رہی تو حکومت کو پھر بھی 80 میگاواٹ کی لاگت کے پیسے ادا کرنا ہوں گے،80فیصد کیپسٹی بلنگ کے اعتبار سے سادہ حساب کے مطابق تو حکومت آئی پی پیز کو35 ہزار میگاواٹ سے زائد کی ادائیگی کرتی ہے، جبکہ 22 ہزار میگا واٹ بجلی نجی اور صنعتی شعبے کو فروخت ہو پا رہی ہے۔ یوں 13 ہزار میگاواٹ کی اضافی ادائیگی کو پورا کرنے کے لیے آئے روز فی یونٹ قیمت بڑھائی جاتی ہے۔
ہم بات کرتے ہیں دوسرے ممالک کا مقابلہ کرنے کی مگر یہ کبھی بھی موازنہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے عوام کو کیا دے رہے ہیں؟بھارت کو دیکھیں تو 100 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کے لیے فی یونٹ 3.45 روپے،101 سے 300 یونٹ تک استعمال کرنے پر فی یونٹ پانچ روپے پچپن پیسے، 300 سے500 یونٹ بجلی استعمال کرنے پر سات روپے پینتالیس پیسے فی یونٹ جبکہ 501 اور اس سے اوپر یونٹ استعمال کرنے پرآٹھ روپے پینتالیس پیسے فی یونٹ کے حساب سے چارج کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک ماہ میں چھ سو یونٹ استعمال کرنے والے صارف کو ماہانہ 5070 روپے کا بل بھیجا جاتا ہے، اس میں اگر مختلف ٹیکسز بھی شامل کرلیے جائیں تب بھی یہ چھ ہزار روپے ماہانہ تک محدود رہے گا۔
بنگلہ دیش میں عام صارفین کو بجلی کا بل چار ٹکا تریپن پیسے فی یونٹ کے حساب سے چارج کیا جاتا ہے جبکہ پچھلے سال یہ چار ٹکا اور انیس پیسے فی یونٹ تھا ۔ بنگلہ دیش میں بجلی کی نئی قیمت باقاعدہ صارفین کے لیے 4.53 ٹکا ۔ زراعت کے صارفین کے لیے 4.19 ٹکا جبکہ چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 8.95 ٹکا مقررکی گئی ہے۔اب آ جائیں پاکستان میں بجلی کی قیمتوں کی جانب تو سن کر سب کے ہوش اڑ جائیں ، ایک عام صارف کے لیے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت یوں تو نو سے دس روپے ہے لیکن اس رقم پر ٹیکسسزکی بھرمار ہے، یعنی اگر کسی صارف نے 12سو یونٹ بجلی استعمال کی ہوتو اِس کے بجلی چارجز51 ہزار 264 رو پے ٹھہریں گےکیونکہ اب اس پر جو ٹیکس نافذ ہوں گے ان میں یونیفارم کوارٹرلی ایڈجسمنٹ، فیول چارجزایڈجسمنٹ، ایڈیشنل سر چارج اور پھر سرچارج کے بعد یہ بل تقریباً66 ہزار روپے کا ہوجائے گا۔ اِس کے بعد اس ٹوٹل پر الیکٹرک سٹی ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور ٹی وی فیکس وصول کی جائے گی جو 19 ہزار روپے کے لگ بھگ بن جاتے ہیں، اس طرح صارف کو 85 ہزار روپے کا بل ادا کرنا پڑے گا۔ایسی حالت میں لوگ اپنے تن بدن کے کپڑے نہ بیچیں تو کیا کریں ،ملک سے بھاگنے کی کوشش نہ کریں تو اور کیا کریں؟جن لوگوں کو صبح کے ناشتے کے بعد دوپہر کے کھانے کا پتا نہ ہو کہ کہاں سے آئے گا تو وہ کیا سوچے گا ،کہتے ہیں کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔
میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ بستر مرگ پر پڑے جب کسی مریض کا آخری وقت آتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی نبض ڈوبنے لگتی ہے،ڈاکٹر ز اس کی نبض بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگروہ ناکام ٹھہرتے ہیں کیونکہ اس وقت جسم کے تمام اعضاء جواب دے چکے ہوتے ہیں،اب اس ملک کے غریب کی حالت بستر مرگ پر پڑے مریض جیسی ہوتی جارہی ہے،اب نبض ڈوب رہی ہے اور سامنے موت نظر آرہی ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر