سٹی42: حماس نے جمعے کے روز ان چار مغوی یرغمالیوں کے نام اسرائیل کو بھیج دیئے ہیں جنہیں وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت آج ہفتہ کے روز رہا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ توقع ہے کہ اسرائیل اپنی ایک فہرست شائع کرے گا، جس میں چار یرغمالیوں کے بدلے رہا کئے جانے والے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے نام شامل کیے جائیں گے۔
چاروں یرغمالیوں کے نام 19 سالہ لیری الباگ، 20 سالہ ڈینیلا گلبوا، 20 سالہ کرینہ ایریف، 20 سالہ اور ناما لیوی ہیں۔
یہ چاروں خواتین آئی ڈی ایف کی اہلکار فوجی ہیں اور انہیں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے زیرقیادت قتل عام کے دوران نہال اوز فوجی اڈے پر آئی ڈی ایف کے سرحد کی نگرانی کرنے والے یونٹ سے اغوا کیا گیا تھا۔
سات اکتوبر کی صبح اس فوجی چوکی سے اغوا کی گئی خاتون نگران فوجیوں کی تعداد چھ تھی۔ ان میں سے ایک کو بعد میں زندہ بچا لیا گیا تھا، اور دوسری خاتون فوجی کو حماس نے قید کے دوران قتل کر دیا تھا۔ ان کی لاش کو بعد برآمد کیا گیا تھا۔
یرغمال بنائے گئے پانچ باقی ماندہ نگرانی کے فوجیوں میں، اکیس سالہ اگام برجر، وہ واحد شخص ہے جو حماس نے جمعے کو جاری کی گئی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے اندر گھس کر قتل عام کے ساتھ جن ڈھائی سو مردوں، عورتوں اور بچوں کو اغوا کر کے یرغمال بنا لیا تھا، ان میں سے 33 کو جنگ بندی کے پہلے مرحملہ میں رہا کرنے کا معاہدہ دوحہ مذاکرات مین ہوا تھا، ان میں سے 3 سویلین خواتین کو جنگ بندی کے پہلے روز رہا کیا جا چکا ہے۔ حماس ہر ہفتے کے روز تین یرغمالیوں کر رہا کرے گی اور یہ سلسلہ جنگ بندی کے آغاز سے 42 دن میں مکمل ہو گا۔ اس طرح 33 یرغمالیوں کی واپسی تک کم از کم چھ ہفتے غزہ میں جنگ بند رہے گی۔
آج متوقع طور پر رہا کی جانے والی ان نگران فوجیوں کے علاوہ، جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں رہا ہونے والی 33 کی اصل فہرست میں سے دو خواتین سویلین اب بھی یرغمال ہیں: اربیل یہود، 29، اور شیری سلبرمین بیباس، 33۔ اسرائیل نے حماس کو آگاہ کیا تھا کہ اسے توقع تھی کہ یہود - جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ساتھی دہشت گرد گروپ فلسطینی اسلامی جہاد کے پاس ہے - کو اس ہفتے کے آخر میں رہا کردیا جائے گا، تاہم حماس نے جمعہ کو اس کا نام نہیں لیا۔ سویلین خواتین یرغمالیوں کی بجائے فوجی یرغمالیوں کو پہلے رہا کیا جانا اصل جنگ بندی معاہدہ کی وائلیشن ہے تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں آج رہا کی جانے والی چار گوجی خواتین کی پہلے رہائی پر کوئی اعتراض نہیں۔
ان خواتین کے بدلے میں اسرائیل کی جیلوں میں قید یا حراست میں لیے گئے 180 فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔
اسرائیل میں جمعہ کے روز بھی یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے اپنے عزیزوں کی رہائی کے لئے ھکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حماس کے زیر حراست باقی تمام اسیروں کی رہائی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ان کی رہائی کے لیے دباؤ جاری رکھیں۔
اسرائیل کا اندازہ ہے کہ غزہ میں 90 سے زیادہ باقی یرغمالیوں میں سے تقریباً ایک تہائی یا ممکنہ طور پر نصف کے قریب حماس کے ہاتھوں یا جنگ کے دوران مارے جا چکے ہیں۔
حماس نے ابھی تک اپنے قبضہ میں موجود زندہ قیدیوں کے بارے میں حتمی تعداد نہین بتائی نہ ہی اپنی قید میں مارے جانے والے یرغمالیوں کے نام ہی بتائے ہیں۔ تاہم توقع ہے کہ آئندہ ہفتوں میں کم از کم ان 26 یرغمالیوں کے بارے میں معلومات جاری کی جائیں گی جن کے بارے مین گمان ہے کہ وہ "33 یرغمالیوں کے گروپ" کے بعد جنگ بندی کے دوسرے مرحلہ مین رہا ہو سکتے ہیں۔ دراصل جنگ بندی کے دوسری مرحلہ مین مذاکرات کا آغاز ہی باقی ماندہ زندہ یرغمالیوں کے زندہ ہونے کے شواہد سے ہو گا۔
جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں غزہ میں اضافی ہیومینیٹرین امداد کے ساتھ اسرائیل کے زیر حراست سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے مجموعی طور پر 33 یرغمالیوں کو بتدریج رہا کر دیا جائے گا۔
فلسطینی انکلیو میں، غزہ کی پٹی کے وسطی اور جنوبی حصوں میں شہری، شدید تباہ شدہ شمال میں اپنے گھروں کی باقیات میں واپسی کی امید میں، ایک اذیت ناک انتظار کا سامنا کر رہے ہیں۔غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں 47,000 سے زائد فلسطینیوں کی جانیں جا چکی ہیں حماس کے زیر اثر غزہ کی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ہرارکی جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق نہیں کرتی۔
یہ تنازعہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہوا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے۔