تنگ آمد بجنگ آمد؛  دو درجن خارجی دہشت گرد محفوظ پناہ گاہوں میں جہنم واصل

25 Dec, 2024 | 11:51 PM

Waseem Azmet

سٹی42:  تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق خارجی دہشت گردوں کی ڈیورنڈ لائن پار چار کمین گاہوں پر حملہ کر کے ان کمین گاہوں کو تباہ کر دیا گیا اور وہاں موجود دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔

صحافتی ذرائع کے مطابق سیکورٹی حکام نے منگل کی رات دیر گئے کہا تھا کہ جنگی طیاروں نے افغانستان کے مشرقی صوبہ پکتیکا میں  چار مقامات پرخارجی دہشت گردوں کے  کیمپوں پر  ٹارگٹڈ  کارروائی میں متعدد مشتبہ دہشت گردوں کو نشانہ بنایا  گیااور انہیں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ حکومت نے ابھی تک کارروائیوں پر کوئی  بیان جاری نہیں کیا ۔ 

دہشتگردوں کی کمین گاہوں کے خاتمے کے لئے پاکستان کی حکومت نے پڑوسی ملک کی عارضی حکومت کو بار بار درخواستیں کیں جن کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا رہا۔ اس دوران سرحد پار کر کے پاکستانی علاقوں میں دہشتگردوں کے گروہ  پاکستانی علاقوں میں گھستے رہے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو چھپ کر بزدلانہ حملوں کا نشانہ بنا تے رہے۔ دہشتگردوں کے ٹھکانے سرحد کے دوسری طرف ہونے کی وجہ سے سکیورٹی فورسز اپنے سامنے آ جانے والے دہشتگردوں کا تو مقابلہ کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچاتی رہتی ہیں لیکن فرار ہو کر سرحد پار موجود کمین گاہوں میں چھپ جانے والے  دوبارہ چھپ کر حملے کرنے کے لئے مھفوظ رہتے ہیں۔ 

باہا شکایات کا نوٹس نہ لئے جانے پر بالآخر محدود ٹارگٹڈ سٹرائیکس کی گیں جن کے نتیجہ میں  نشانہ بنائے گئے تمام اہداف بتاہ ہو گئے۔

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو  ایک پاکستانی میڈیا  آؤٹ لیٹ کے رابطہ کرنے پر تسلیم کیا کہ حملوں میں مرنے والوں میں پاکستان کے  قبائلی ضلع وزیرستان سے پکتیکا میں جا کر کیپم بنانے والے افراد شامل ہیں۔ عارضی طالبان حکومت کا ترجمان اب بھی بضد تھا کہ یہ لوگ "بے گھر" تھے۔ اسلئے  افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کیمپوں میں رہ رہے تھے"۔  طالبان حکومت نے کابل میں پاکستان کے سفارتخانہ سے صوبہ پکتیکا میں شن سترگی اڈا، سورزغمی، المستی اور مرغی کے علاقوں پر بمباری ہونے کی شکایت کی ہے۔ 

منگل کے روز پکتیکا میں خوارجی دہشت گردوں کی چار کمین گاہوں پر ائیر سٹرائیکس کے غیر معمولی  واقعہ کے دن ہی اپاکستان کے خصوصی ایلچی محمد صادق کی قیادت میں ایک پاکستانی وفد نے کابل میں عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور عارضی وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کی تاکہ ایک سال کے طویل وقفے کے بعد سفارتی بات چیت دوبارہ شروع کی جا سکے۔

انٹرنیشنل نیوز ایجنسی روئٹرز نے پاکستان کے ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ یہ حملے جیٹ طیاروں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کیے گئے اور ان میں  (خارجی گروہ کے)  کم از کم 20 دہشت گرد مارے گئے۔

پاکستانی اہلکار نے مزید کہا، "افغان حکام کی جانب سے شہریوں کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ بے بنیاد اور گمراہ کن ہے

ایسا نہیں کہ پاکستان نے کسی وقت اشتعال کے زیر اثر کارروائی کر دی، افغان حکام کے ساتھ  پاکستان مین تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کرنے والے خارجیوں کے سرحد پار ٹھکانوں کے خٓتمہ کے لئے ٹھوس شواہد کے ساتھ مسلسل شکایات کی جاتی رہیں، دسمبر کے شروع مین جب یہ اطلاعات آئین کہ افغانستان کی عارضی حکومت نے پاکستان کے نشان دہی کئے ہوئے کچھ مفرور دہشتگردوں کو غزنی کے علاقہ مین سرحدی علاقوں کے نزید بنائے ہوئے کیمپوں سے اٹھوا  کر  سرحد سے دور علاقوں مین منتقل کر دیا ہے تو پاکستان نے اس معمولی مثبت اشارہ کا بھی خیر مقدم کرتے ہوئے محمد صادق کو افغانستان کی عارضی حکومت کے ساتھ ایک سال سے رکے ہوئے ڈائیلاگ کو پھر سے شروع کرنے کا ٹاسک دے دیا تھا، دسمبر کی ابتدائی دو ہفتوں کے دوران کئی رابطے ہوئے لیکن آخری نتیجہ مزید حملوں کی صورت مین ہی نکلا۔۔ 

دسمبر کے ابتدائی دنوں میں ان نئے رابطوں کی حوالے سے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا تھا کہ حالیہ ملاقاتیں "وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے مذاکرات میں پاکستان کی دلچسپی کا اظہار ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے تعمیری نقطہ نظر اور حل تلاش کرنا ہے، جن میں مسائل بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے لیے شدید تشویش ہے۔"

بیک ٹو بیک ملاقاتوں نے یہ تاثر دیا تھا کہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین پر پناہ گاہوں کی اجازت دینے کے پاکستانی شکایات کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد دونوں فریقین تعلقات کی تجدید کی تیاری کر رہے ہیں۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا تھا کہ انسداد دہشت گردی دو طرفہ ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔

مزیدخبریں