سٹی42: امریکہ کی 20 جنوری کو صدر بننے والی متنازعہ شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ کے "نامزد خصوصی سفیر" اور پبلک ریلیشننگ کنسلٹنٹ رچرڈ گرینئیل نے دوسرا خلیل زلمے بنتے ہوئےپاکستان کی ریاست کو دھمکیاں دیں اور عمران خان کو " این آر او دینے" کا براہ راست مطالبہ کر دیا۔ گرینئیل نے دھمکی دی ہے کہ ایک ماہ بعد صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا وزیر خارجہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر "بات کرنے کی تیاری " کر رہا ہے۔
رچرڈ گرینئیل جس کا امریکہ کی ریاست کے کسی ذمہ دار عہدہ پر کام کرنے کا تجربہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سابق صدارت کے دوران جرمنی مین دو سال کے لئے سفیر رہنے کی حد تک رہا ہے، اور اس کا واحد کارنامہ یہ رہا ہے کہ اس نے آزدیِ اظہار کے اب تک کی تاریخ کے سب سے عظیم ہیرو جولیاں اسانج کو ایکواڈور کی پناہ سے نکلوا کر گرفتار کروانے کے لئے منصوبہ بندی میں ایک ہِٹ مین کا کردار ادا کیا تھا اور وکی پیڈیا کے مطابق ایکواڈور کے حکام کو بیک چینل ملاقاتیں کر کے یقین دلایا کہ جولیاں اسانج کو گرفتار کرنے کے بعد امریکہ میں سزائے موت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ جولیاں اسانج اس کے باوجود اب تک امریکہ کے ہاتھ نہیں آئے۔
گرینئیل نے پاکستان کی ریاست کو نشانہ بنا کر ایک انٹرویو کسی "ڈیجیٹل" ادارہ کو دیا ہے جس میں گرینئیل نے "ڈپلومیسی" کی نئی ابجد ایجاد کرتے ہوئے کہا، "ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں سے مختلف انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے" اس کے ساتھ ہی گرینئیل نے پاکستان میں کرپشن سے لے کر سنگین غداری، ریاست کے اداروں پر حملوں اور بغاوت کی سازش جیسے درجنوں سنگین جرائم میں ملوث ایک سیاسی جماعت کے بانی سابق وزیراعظم عمران خان کو این آر او دے کر رہا کر دینے کی فرمائش ہی نہیں کی بلکہ عمل نہ کرنے کی صورت میں ایٹمی طاقت کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے ڈالیں۔
رچرڈ گرینل نے یہ بلا ضرورت "انکشاف" کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد وزیرخارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔
رچرڈ گرینل نے کسی ماہر ڈپلومیٹ کی طرح کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں سے مختلف انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گرینئیل کو ان کی اب تک کی نوکریوں کے دوران کسی بھی ایٹمی طاقت کو "ڈیل" کرنے کا براہ راست تجربہ نہیں ہوا۔
ایک سوال پر رچرڈگرینل نے کہا کہ گزشتہ صدارت کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم سے بہترین تعلقات تھے۔ رچرڈ گرینئیل نے سیلف میڈ ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان کے کرکٹر سے سیاستدان بنا دیئے گئے، 25 سال تک سیاست میں کوشش کرنے کے بعد وزیراعظم بننے والے عمران خان سے بے ڈھنگا تقابل کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کo عمران خان بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح "سیاست میں آؤٹ سائیڈر" تھے،اور دونوں "کامن سینس کی بات" کرتے تھے۔ اپنے تقابل کو آگے بڑھاتے ہوئے گرینئیل نے مزید کہا کہ عمران خان پر ویسے ہی الزامات ہیں جیسے ڈونلڈ ٹرمپ پرہیں۔ سابق صدر اور مستقبل قریب کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکہ کی پارلیمنٹ پر حملہ کروانے کا شبہ رہا ہے، ان پر امریکہ کی انتہائی خفیہ نوعیت کی دستاویزات کو دفاتر سے اٹھا کر اپنے گھر لے جانے اور باتھ روم میں رکھوا دینے کے الزام مین مقدمہ چلا اور نیویارک کی جیوری نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات کا سکینڈل چھپانے کے عوض اس خاتون کو بھاری رقم ادا کر کے اس رقم کو ٹیکس کی ادائیگی کی دستاویزات مین چھپا لینے جیسے کئی الزامات کے مقدمہ میں مجرم قرار دے دیا ہے ، ٹرمپ کو 26 نومبر کو سزا سنائی جانا تھی، اس سے پہلے ہی وہ صدر منتخب ہو گئے جس کے بعد سزا تو اب تک نہیں سنائی گئی تاہم جج نے 17 دسمبر کو کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پریذیڈنشل امیونٹی کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ جسٹس جوآن مرچن نے ٹرمپ کی طرف سے مقدمہ سے جان چھڑانے کے لئے "صدر کو حاصل امیونٹی" کے متعلق سپریم کورٹ کی حالیہ رولنگ کے جوز کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے قرار دیا کہ جولائی کے سپریم کورٹ کا صدر ٹرمپ کو "سرکاری کارروائیوں کے لیے استثنیٰ" دینے کا فیصلہ اس موسم بہار میں فوجداری مقدمے کی سماعت کے بعد جیوری کو انھیں مجرم قرار دینے سے نہیں روکتا۔
رچرڈ گرینئیل نے پاکستان کی عدالتوں میں سنگین نوعیت کے مقدمات کا سامنا کرنے والے عمران خان کی رہائی کی فرمائش کرتے ہوئے کہا، میں چاہتا ہوں کہ سابق وزیراعظم کو رہا کیا جائے۔ گرینئیل نے کسی پیشہ ور ہِٹ مین کی طرح کہا، "ترجمان محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پیچیدہ گفتگو کی، اصل بات یہی ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کو رہا کیا جائے۔"
گزشتہ دنوں امریکہ نے پاکستان پر لانگ رینج بیلسٹک میزائلوں کی تیاری ک کا شبہ کرتے ہوئے پاکستان سے تعلق رکھنے والے چار اداروں پر پابندیاں لگائی تھیں۔سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیوملر کا مؤقف تھا کہ ان چار پاکستانی اداروں پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے میں مدد دی ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد سفیر یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ امریکہ نے جو پابندیاں لگائیں ان کا دراصل مقصد کچھ اور ہے اور سیدھی بات یہ ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جانا چاہئے۔
امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں پہلی مرتبہ نہیں لگائیں، 1998 میں پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد بھی امریکہ نے پاکستان کو سنگین نوعیت کی اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں جو کئی سال تک جاری رہین تھیں لیکن پاکستان کا ایٹمی پروگرام کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھتا رہا تھا۔ حالیہ امریکی پابندیوں کا شکار ہونے والے پاکستانی اداروں میں اسلام آباد کا نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس اور کراچی میں قائم 3 ادارے اختر اینڈ سنز، ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل اور روک سائیڈ انٹرپرائیزز شامل ہیں۔
گزشتہ دنوں ہی امریکہ کے موجودہ نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر نےکہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کا مالک پاکستان لانگ رینج بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے جو اسے جنوبی ایشیا سے باہر کے اہداف حتیٰ کہ امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کے قابل بناسکتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مبینہ تعاون کرنے پر 4 کمپنیوں پر پابندی کے معاملے پر سخت بیان دیتے ہوئے پاکستان کے فارن آفس نے کہا کہ اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا امریکی فیصلہ متعصبانہ ہے، پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔