(ویب ڈیسک) وقت گزرنے کے ساتھ یادداشت بھی متاثر ہونے لگتی ہے، خاص طور پر تب جب زندگی مصروف ہو جاتی ہے۔
یادداشت کی کمی میں جینیات ایک کردار ادا کرتی ہے، خاص طور پر الزائمر کی بیماری جیسے سنگین اعصابی حالات میں۔ تاہم تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ غذا اور طرز زندگی کا بھی یادداشت پر بڑا اثر پڑتا ہے۔
ہماری یادیں اس بات کا لازمی حصہ ہیں کہ ہم کون ہیں، لیکن جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے ہماری یادداشت کم ہوتی جاتی ہے۔ بہت سے بوڑھے بالغوں کے لیے، یاد داشت کا زوال اتنا سنگین ہو جاتا ہے کہ وہ اب آزادانہ طور پر زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے، جو کہ ان کی عمر کے ساتھ ساتھ بالغوں کے لیے سب سے بڑا خوف ہے۔
درحقیقت روزانہ ہمارے دماغ پر نئی معلومات کا اضافہ ہوتا ہے اور یہ حیرت کی بات نہیں کہ یادداشت میں سب کچھ سما نہیں پاتا۔
کینیڈا کی واٹر لو یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اونچی آواز میں جملے بولنا کسی بھی معلومات کو ذہن میں محفوظ رکھنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ تحقیق کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ بولنے اور سننے سے الفاظ زیادہ ذاتی لگنے لگتے ہیں اور دماغ میں اٹک جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ پڑھنے اور یادداشت میں بہتری کے درمیان تعلق موجود ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ آپ کسی چیز یا نئی معلومات کو یاد رکھنا چاہتے ہیں تو اسے کسی شخص کے سامنے دہرا دیں جس کے نتیجے میں اس کی تفصیلات زیادہ بہتر اور طویل عرصے تک یاد رہتی ہیں۔ محققین کا کہنا تھا کہ کسی بھی معلومات کو کسی دوسرے فرد سے شیئر کرنا ذہن میں انہیں اچھی طرح ذہن نشین کرنے میں مدد دیتا ہے اور یہ اثر طویل المعیاد بنیادوں کے لیے ہوتا ہے، یہ اہم چیزوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے بہترین اور فوری اثر کرنے والا طریقہ ہے۔
ایک اور امریکی یونیورسٹی نارتھ ویسٹرن کی تحقیق کے مطابق گہری سانس لینا جسم پر جادوئی اثرات مرتب کرتا ہے اور ایک دفعہ ہی ناک سے سانس لینے سے دماغ مضبوط جبکہ یادداشت بہتر ہوتی ہے۔ تحقیق کے دوران رضاکاروں پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ جو لوگ گہری سانس لینے کو عادت بناتے ہیں ان کے لیے چیزوں کو یاد رکھنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ سانس لینے کے دوران دماغ کے حصوں ایمی گدالا اور ہپو کمپس پر مختلف اور ڈرامائی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جب کوئی سانس لیتا ہے تو دماغی حصوں کے عصبی خلیوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔
یو اے ای کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ناشتہ کرنے سے یادداشت، توجہ، تخلیقی صلاحیتوں میں بہتری، مزاج میں خوشگواریت اور ذہنی تناﺅ کی سطح کم ہوتی ہے۔ اچھی نیند بھی صحت مند ذہن اور یادداشت کے لیے ضروری عنصر ہے، جس سے ذہن کو نئی معلومات کا تجزیہ کرنے کا وقت ملتا ہے اور یادداشت مستحکم ہوتی ہے۔