( قیصر کھوکھر) بیوروکریسی کی تاریخ میں انتقام کی سیاست عام ہے جب بھی کوئی حکومت آتی ہے تو بیوروکریسی کا ایک گروپ اس کے ساتھ مل جاتا ہے اور اپنے مخالفین کو دبا کر رکھتا ہے اور مخالفین کو اچھی تقرری نہیں لینے دیتا ہے اور کئی ایک کیخلاف مقدمات بھی بن جاتے ہیں، فواد حسن فواد اور احد خان چیمہ کے خلاف بھی مقدمات بنے ہیں۔
آج کل فواد حسن فواد اور احد خان چیمہ دونوں ہی ضمانت پر رہا ہیں، لیکن ان کے کیس نیب عدالتوں میں چل رہے ہیں، یہ افسران حکومت کے ساتھ ایک پارٹی بن جاتے ہیں اور حکومت کے ساتھ انتقامی سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے اپوزیشن جب اقتدار میں آتی ہے تو وہ ان افسران کو دھر لیتی ہے۔ موجودہ حکومت میں سابق سی سی پی او لاہور شیخ محمد عمر اور ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس اس وقت اپوزیشن کے نشانے پر ہیں۔
مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثنا ء اللہ نے چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک اور کمشنر لاہور ڈویژن کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس کو بھی نشانے پر لیا ہے اور ان کیخلاف میڈیا میں ایک سخت دھمکی آمیز بیان دیئے ہے حالانکہ موجودہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک ایک انتہائی شریف اور غیر جانبدار افسر ہیں۔سب افسران کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ لیکن رانا ثناء اللہ کا انہیں دھمکی دینا سمجھ سے بالاتر ہے ۔جواد رفیق ملک اور کیپٹن (ر) محمد عثمان دونوں سابق وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ جب محمد شہباز شریف وزیر اعلی تھے تو جواد رفیق ملک اس وقت کمشنر لاہور تعینات تھے اور کیپٹن (ر) محمد عثمان ان کے دور میں لمبے عرصہ تک ڈی سی لاہور رہے ہیں۔
جس طرح ماضی میں ڈی ایم جی نون بن گیا تھا اور اس گروپ میں شامل ہونے والے افسران کو ہی اچھی تقرری دی جاتی تھی اور بعد میں آنے والی حکومت میں ڈی ایم جی نون کے رکن فواد حسن فواد اور احد خان چیمہ زیر عتاب آئے۔ اب کی بار حکومت کے ساتھی افسران کے نام اپوزیشن نے چن لئے ہیں اور سر عام ان افسران کے نام پریس کانفرنسوں میں لئے جا رہے ہیں۔ ایک افسر کو صرف اور صرف اپنے پیشہ کے ساتھ مخلص ہونا چاہئے نہ کہ حکومت کے ساتھ۔ حکومت تبدیل ہوتی رہتی ہے، لیکن افسر وہ رہتے ہیں۔ چپڑاسی نہیں بن جاتے ہیں لیکن وہ افسران جو غیر جانبداری سے فرائض سرانجام دیتے ہیں وہ ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں اور جو افسران کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نتھی ہوجاتے ہیں وہ ہمیشہ گھاٹے میں رہتے ہیں۔
جب مخالف سیاسی جماعت کی حکومت آتی ہے وہ پھر ان افسران کو انتقامی سیاست کانشانہ بنا دیتی ہے۔ جیسا کہ ماضی میں کئی افسران کے ساتھ ہو چکا ہے۔ بزدار حکومت کی سیاسی کمزوری یہ ہے کہ ان کی حکومت ابھی تک بیوروکریسی کی ایک مضبوط ٹیم نہیں بنا سکی ا ور اس وقت بزدار حکومت کی ٹیم میں شہباز شریف کی ٹیم کے ہی افسران شامل ہیں ۔ قائم مقام سیکرٹری انفارمیشن راجہ جہانگیر انور ماضی میں شہباز شریف کے دور میں بھی سیکرٹری انفارمیشن رہے ہیں۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم مومن آغا ماضی میں شہباز شریف کے سیکرٹری انفارمیشن رہ چکے ہیں ۔چیئر مین پی اینڈ ڈی عبداللہ سنبل شہباز شریف کے سٹاف افسر رہے ہیں۔ سیکرٹری لیبر ڈاکٹر احمد جاوید قاضی شہباز شریف ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ بابر حیات تارڑ ان کے دور میں کمشنر ساہیوال تھے ۔ اس طرح کئی اور افسران بھی ہیں جو شہباز شریف کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ موجود ہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک ان کے دور میں کمشنر اور کیپٹن (ر) محمد عثمان ڈی سی لاہور تھے۔
آج کی بیوروکریسی میں پروفیشنلزم ختم ہو کر رہ گیا ہے اور حکومت کا بھی اس میں قصور ہے کہ حکومت صرف اپنے ہم خیال افسران کو ہی اچھی تقرری دیتی ہے اور بیوروکریسی میں اپنے گروپ پیدا کرتی ہے ۔ میاں شہباز شریف کی رہائی کے بعد اب مسلم لیگ نون کو چیف سیکرٹری اور کمشنر لاہورکے خلاف دیا گیا بیان واپس لینا چاہئے اور بیوروکریسی کو صرف اور صرف میرٹ اور قانون کے مطابق کام کرنے دیا جائے اور بیوروکریسی کو بھی یہ چاہیئے کہ وہ تحریک انصاف کی سیاست کا حصہ نہ بنیں اور پیشہ وارانہ اپروچ اپنائیں