(شاہین عتیق) (گزشتہ سے پیوست) نماز کے بعد آخری سلام کیا اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ مسجد سے باہر نکل آئے میرے قدم میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس وقت میرا حال اس بچے جیسا تھا جسے ماں سے الگ کر دیا جائے اور وہ بے چین ہو جاتا ہے۔ میں ہوٹل آیا کمرے میں داخل ہو ا تو ساتھ کے کمرے میں زاہد چودھری کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا ان کے پاس کھڑے شاہد سپرا،عرفان ملک ،علی اکبراور عمر اسلم غور سے زاہد چودھری کی گفتگو سن رہے تھے ۔اسی دوران زین العابدین اور عثمان تیزی سے آئے اورپیغام دیا کہ بس تیار ہے۔ نیچے انتظار ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سب لابی میں جمع ہوگئے اور بس میں بیٹھ کر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ہمارے ساتھ مدینہ میں ہمارے میزبان خالدانصاری بھی موجود تھے جنہوں نے مدینہ میں بھی ہماری خوب مہمان نوازی کی جس کو ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
ہماری بس مکہ کی طرف روانہ ہو گئی راستے میں بس چلتی رہی اور بس کی کھڑکی سے سڑک کے دونوں طرف بکھرے سیاہ رنگ کے پہاڑوں کو دیکھتے رہے ۔ہماری بس راستے میں میقات بیر علی مسجد کے پاس پہنچی۔ جہاں پر ہم نے وضو کرکے اپنے اپنے احرام باندھے اور عمرہ کی نیت کرکے دو نفل پڑھے ۔ یہاں پر ہرطرف سے لبیک اللھم لبیک کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں۔ پھر ہم عمرہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ چھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم لبیک اللھم لبیک پڑھتے ہوے مکہ مکرمہ پہنچے۔ یہاں پر ہم نے اپنا سامان حرم شریف کے قریب انجم ہوٹل میں رکھا اور کمروں میں وضو کرکے لبیک اللھم لبیک کا ورد کرتے ہوے شاہ حسین گیٹ کے راستے حرم میں داخل ہو گئے۔
احرام باندھے ہوئے اللہ کے گھر کا طواف کرنا عجب لذت رکھتا ہے ۔اس عمل کا دل آویز پہلو یہ ہے کہ یہاں ہر بستی سے آئے ہوئے اہل حرم ایک ہی انداز ایک ہی اسلوب اور ایک ہی کیفیت سے طواف کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں سب ایک دوسرے سے بے نیاز اپنی لگن میںمبتلا ہیں۔ ان میں مرد بھی ہیں اورعورتیں بھی، جوان بھی ہیںاور بچے بھی، کچھ ایسے ہیں جن کے سعادت مند بیٹوں نے انہیں وہیل چیئرپر بٹھا رکھا ہے اور کچھ ایسے ہیں ان کے جوان بیٹے انہیںکندھوں پر اٹھائے طواف کروا رہے ہیں ۔کچھ احرام میں ہیں اور کچھ اپنے قومی لباس میں، لیکن قوس قزح کی سی یہ ساری لہر ایک ہی مرکز ثقل کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اپنی بندگی کا اقرر کر رہے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کر رہے ہیں۔ اپنے پیاروں کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ان میں دولت مند بھی ہیں ،ارباب اختیار بھی ، ان میں وہ بھی ہیں جو ناجانے کتنے برس ایک حسین خواب کی تعبیر پانے کے لیے پائی پائی جوڑتے رہے ۔اس موقع پر ہمیں بتایا گیا کہ آپ نے کعبہ کی طرف دیکھ کر یہ دعا کرنی ہے کہ اے خدا میں یہاں جو بھی دعا مانگوں اس کو قبول کرنا ،چونکہ کعبہ پر پہلی نظر جب پڑتی ہے جو مانگا جائے قبول ہوتا ہے۔ اگر یہ دعا مانگو گے جب تک حرم میں رہو گے، جو دعا مانگو گے قبول ہو گی۔ 120 رکنی وفد کعبہ کے سامنے پہنچا اوردعا کے بعد میں نے کعبہ کاطواف شروع کر دیا ۔اس وقت کافی ہجوم تھا اور ہم نے آدھے گھنٹے میں طواف مکمل کیا۔
حجر اسود کےعین سامنے والے حصے میں جا کر دو نفل ادا کیے اورسعی کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہاں پر بھی ہم نے سات چکرمکمل کیے اور اس طرح ہمارا عمرہ مکمل ہوگیا۔یہاں سے دوست قریبی حجام کی دکان میں گئے ۔جہاں پرکافی تعداد میں ساتھیوں نے سر منڈوائے اور بال کٹوائے اس کے بعد ہوٹل آ کر ہم نے اپنے احرام کھول دیے اور دوسرے کپڑے پہن لیے ۔ہوٹل میں خالدانصاری جو ہمارے میزبان تھے انہوں نے کھانے کااہتمام کر رکھا تھا۔ کھانا ایسا تھا کہ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کھانا کھانے کے بعد ہم اپنے کمروں میں چلے گئے اور کچھ دیرآرام کرنے کے بعد تمام ساتھی اپنی اپنی عبادت کے لیے چلے گئے۔پہلا طواف اپنی والدہ کے نام کا کیا۔ میری والدہ کو انتقال کیے ہوئے ایک سال سے زائد ہو گیا لیکن آج بھی والدہ کی تصویر میری آنکھوں میں ہے۔ طواف کے بعد جب میں نے اپنی والدہ کی بخشش کے لیے ہاتھ اٹھائے تو مجھ پراس بچے کی سی کفیت طاری ہو گئی جو بڑی دیر سے اپنے دکھ چھپائے اپنے آنسوضبط کیے بیٹھا ہوتا ہے۔
میرا چہرہ آنسوﺅں سے تر ہو چکا تھا اور آنکھیں خانہ کعبہ پر جمی تھیں۔ میرے دل سے دعا نکلی اے خدامیں اس حال میں آیا ہوں کہ میری ماں مجھ سے بہت دور چلی گئی ہے ،دعاﺅں کا وسیع سلسلہ نہیں رہا جو مجھے آغوش میں لیے رکھتا تھا، اب وہ نہیں رہیں جوتجھ سے میری زندگی اور خوشیاں مانگاکرتی تھیں آج میں اس کی بخشش کے لیے تیرے سامنے کھڑا ہوں، میرے خدااسے بخش دے ،اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دےدے ۔اے خدا تو ہی سب کو دینے والا ہے۔ میں کافی دیر خدا سے باتیں کرتا رہا، بھیک مانگتا رہا بعد میں ساتھیوں کے ساتھ حجراسود کوبوسہ دیا ۔حرم میں تین روز خدا کی عبادت کرتے گزارے ۔یکم اپریل کو ہم نے واپس جانا تھا۔ اسی دوران ہمیں اطلاع ملی کہ کچھ ارکان زیارت کے لیے جا رہے ہیں۔
ہم دس بجے زیارت کے لیے روانہ ہوئے ۔مکہ میں مختلف مقامات کی زیارت کی اور ظہر کے وقت واپس آگئے۔ہوٹل پہنچتے ہی سامان پیک کیا اور واپسی کی تیاری مکمل کر لی۔ آج سر زمین حجاز سے رخصت ہونے کا دن ہے الوداعی طواف کے لیے حرم شریف میں جمع ہوگئے۔ دنیا میں شائد ہی کوئی ایسی نگری ہو جو انسان کوزنجیریں ڈال لیتی ہو اور اس کا اپنے گھر جانے کودل نہ چاہتا ہو ۔ا س موقع پرخیال آ رہا تھا کہ جانے اس نور بھری بستی کی طرف اب آنا نصیب ہو گا یا نہیں ،میں اپنا سامان سمیٹے نڈھال کھڑا تھا اورمیرے تصور کی آنکھیں کبھی حرم کعبہ کے بلند وبالا میناروں اور کبھی سبز رنگ کے گنبد کی طرف چلی جاتیں، کبھی میں سیاہ غلاف میں لپٹے بیت اللہ کا طواف کرنے لگتا اور کبھی روضہ رسول کی سنہری جالیوں کے پاس جا کھڑا ہوتا ۔میرے دل نے تسلی دی کہ زندگی رہی تو راستہ نکل ہی آئے گا۔رب کعبہ رحمان ورحیم تو ہے ہی۔ ہم نماز کے بعد مسجد پہنچے تو وہاں پر وفد کے تمام ارکان موجود تھے۔
ہم نے کعبہ کا الودا عی طواف کیا اور دعا کی اس کے بعد ہم واپس ہوٹل آئے اور اپنی اپنی بسوں میں سوار ہو گئے۔ مدینہ اور مکہ حاضری کے موقع پرمیری خواہش تھی کہ میں کعبہ میں نویدچودھری کے ساتھ وقت گزارتا۔ لیکن اس باراکٹھے عبادت کرنے کازیادہ موقع نہ ملا واپسی پرخالدانصاری نے جدہ میں سمندر کے کنارے ہمیں الوداعی عشائیہ دیا۔انہوں نے ہماری جس طرح مہمان نوازی کی ہم اس کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ سمندر کے کنارے تیز ہواکے جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔ اس وقت وفد کے ارکان نے کھانا کھایارات ہوٹل میں قیام کیا ، صبح ناشتے کے بعد ہم ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے ۔ہمارے جہاز نے جدہ ایئرپورٹ کی حدود کو چھوڑ دیا اور ہم یکم اپریل کو رات ساڑھے آٹھ بجے عمرے کی سعادت حاصل کرکے واپس پاکستان پہنچ گئے ۔یہاں آنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ ہم اسی مقدس جگہ پر ہیں ابھی ہمارادل مدینہ اور حرم شریف میں ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی سب کو اپناگھر دیکھنا نصیب کرے آمین۔