سٹی42: پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کا بکرا آخر کار نج کاری کی چھری تلے آ گیا۔ قومی ائیر لائن کو بیچنے کے لئے بولی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ قومی ائیر لائن کو خریدنے والے اس کے موجودہ ملازمین کو صرف دو سے تین سال تک برقرار رکھنے کے پابند ہوں گے۔
نجکاری کمیشن کے سیکرٹری نے اعلان کیا ہے کہ پی آئی اے کی نجی شعبہ کو فروخت کیلئے نیلامی یکم اکتوبر ہوگی۔
آج منگل کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس مین یہ انکشاف ہوا کہ پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن کیلئے تمام تیارہ مکمل ہو چکی ہے اور اب نیلامی کیلئے صرف وفاقی کابینہ کی حتمی منظوری باقی رہ گئی ہے۔
قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی فار پرائیویٹائزیشن کا اجلاس فاروق ستار کی زیر صدارت ہوا ۔ اجلاس میں سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ پی آئی اے کی بولی یکم اکتوبر کو ہو گی جس کی حتمی منظوری کابینہ دے گی۔
کمیٹی کے چیئرمین فاروق ستار نےاس انکشاف پر کہا پی آئی اے کے ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں کٹوتی نہیں ہونی چاہیے۔
آئی پی پیز معاہدے کی طرح پچھتانا نہ پڑ جائے!
کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سحر کامران نے معاہدے کا ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر سیکرٹری نجکاری کمیشن نے گول مول جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈرافٹ غور کرنےکے لیے سرمایہ کاروں کو دیا گیا ہے، اس ڈرافٹ کی ابھی کابینہ نے بھی منظوری دینی ہے۔
سحر کامران کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کاعمل سمجھ بوجھ سے کیا جانا چاہیے یہ نہ ہو کہ کل آئی پی پیز کے معاہدوں کی طرح پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن پر بھی پچھتانا پڑے ۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ قومی ائیر لائن خریدنے والی کمپنی کو نئے جہاز لینا ہوں گے اور جہازوں کا فلیٹ 18 سے بڑھا کر 3 سال میں 45 کرنا ہوگا۔ پی آئی اے کا موجودہ عملہ دو سے تین سال تک رکھا جائے گا اور روٹس بحال رہیں گے جبکہ یورپ کی پابندی اٹھا نے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ معاہدےکی خلاف ورزی ہوئی تو قومی ائیر لائن کو خریدنے والی کمپنی کے خلاف کارروائی ہو سکے گی، خریدار کمپنی کو آتےہی 65 سے70 ارب روپے تک سرمایہ کاری کرنا پڑےگی۔
پہلے سے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن حکومت دیا کرے گی
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن 35 ارب روپے بنتی ہے، پہلے سے ریٹائرڈ ہو چکے ملازمین کی پینشن حکومت ادا کرے گی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ حکومت نے پی آئی اےکے 800 ارب روپےکے قرض میں سے 600 ارب اپنے ذمہ لے لیے، مجموعی طور پر اب پی آئی اے پر کوئی قرض نہیں ہے، اب سرمایہ کاروں کے لیے اس ائیر لائن کو منافع بخش بنانے کا امکان ہے۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ پی آئی اے کو نجکاری کے بعد تربیت یافتہ عملہ رکھنا ہوگا، پی آئی اے کے تربیت یافتہ عملے کو برقرار رکھا جائے گا۔
اجلاس میں پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی شریک تھے، انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی سیفٹی عالمی معیار کے مطابق ہے، برطانیہ کے لیے فلائٹس جلد بحال ہونے کا امکان ہے۔
سی ای او پی آئی نے بتایا کہ اس وقت ہمارے پاس 320 پائلٹ ہیں، نئے سرمایہ کاروں کو کیبن کریو اور آئی ٹی کا عملہ رکھنا پڑے گا۔