ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

میثاق جمہوریت کے مطابق عدالتی اصلاحات لا کر رہیں گے، بلاول بھٹو 

Bilawal Bhutto Zardari, City42 , Sindh High Court Bar, Democracy and dictatorship, the constitution
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: پاکستان  پیپلز پارٹی کے چئیرمین  بلاول بھٹو   زرداری نے کہا ہے کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے ہم نے نسلوں کی قربانیاں دی ہیں۔ آئینی عدالت ضروری اور  مجبوری ہے اس لیے آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔ 

کراچی میں سندھ ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین سازی اور قانون سازی عدلیہ کے ذریعے نہیں ہوسکتی، 19 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ کی دھمکی کی وجہ سے لانا پڑی مگر اب کچھ بھی ہو میثاق جمہوریت کے مطابق عدالتی اصلاحات لا کر رہیں گے ۔

بلاول بھٹو  نے کہا کہ سپریم کورٹ کی دھمکی کی وجہ سے  19 ویں ترمیم میں ججوں کے تقرر کا وہ طریقہ بدلنا پڑا جو پوری دنیا میں رائج ہے، امریکا میں پوری پارلیمان ججوں کے تقرر کا فیصلہ کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا میں آج تک مارشل لاء نہیں لگا۔ 

 بلاول بھٹو نے سندھ کے سینئیر وکلا کی مجلس میں کچھ ہلکی پھلکی باتیں بھی کیں جن سے وکلا ہنس ہنس کر دوہرے ہو گئے اور بلاول بھٹو خود بھی اپنی باتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔  انہیں نے ایک بات کہنے کے بعد کہا، اب اس بات پر میری میمز بنیں گی، یہ سن کر بار کے اجتماع میں شریک ارکان ہنس پڑے، بلاول بھٹو خود بھی اپنی بات پر مسکراتے رہے۔ 


بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت ضروری ہے اورمجبوری بھی، اس لیے آئینی عدالت بنا کر رہیں گے تاکہ کسی دوسرے وزیر اعظم کو تختہ دار پر نا چڑھایا جا سکے اور لوگوں کو انصاف مل سکے۔ 

چیئرمین بلاول بھٹو  نے مزید کہا کہ  انصاف دینے والے ادارے نے عدالتی قتل کیا، ضیاء الحق کا دور شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے دیکھا ہر سیاسی کارکن پر تشدد ہوا، شہید بے نظیر کو پتا تھا ہمارا نظام ٹوٹا ہوا تھا، اس وقت افتخار چوہدری انقلابی نہیں پی سی او جج تھا، کوئی ڈیم والا جج نہیں تھا۔  اس وقت فیصلہ کیا تھا کہ آئینی عدالت بنے گی،  لوگوں کو انصاف ملے گا، اس وقت عدالتیں پکوڑوں اور ٹماٹر کی قمیت طے کررہی تھیں۔

بلاول بھٹو نے  کہا کہ سندھ ہائیکورٹ سےہماراتعلق تین نسلوں سےہے، ہم ایک دوسرے کو اندر اور باہر سے جانتے ہیں۔میں تو اس خاندان، جماعت سےتعلق رکھتاہوں جس نےآئین دیا، ہماری تاریخ کچھ ایسی ہے کہ ہم نے آمرانہ دور بھی دیکھا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے 1973 کے آئین کو ایک آنکھ کی لرزش اور ہونٹوں کی جنبش سے اڑا دیا جاتا ہے۔ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طریقہ سے ہمارے معزز جج صاحبان آمر کو یہ کام کرنے دیتے  ہیں جس کی وجہ سے وہ 10 10 سال جمہوریت اور آئین کو بھول جاتے ہیں اور سارا اختیار ایک آمر کو دیا جاتا ہے۔

 چیئرمین بلال بھٹو نے کہا  کہ ہمارے آئین کو ایک کاغذ کا ٹکرا سمجھ کر پھاڑا گیا اور اس سے  بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے  کہ جج صاحبان نے آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔

 انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اتنے کرپٹ ہیں کہ آپ پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، پاکستان کا جمہوری نظام ایسا ہے کہ ہم صرف ایک پی سی او جج برداشت کرسکتے ہیں، اگر ایک دفعہ ایک جج پی سی او کا حلف لیتا ہے  تو تب آئین کو اور جمہوریت کو مسئلہ ہوتا ہے۔

 بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کی بحالی کے لیے نسلوں کی قربانیاں دیں تاکہ  ملک میں عوام کی مرضی چلے، تا کہ آپ پارلیمان میں ایسے نمائندے بھیجیں کہ آپ کی مرضی کا قانون بنے اور آپ کی مرضی کا آئین بنے۔