ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

منصور علی شاہ کا قاضی کو خط ، قرآن اُٹھاؤ ،سچ بولو 

منصور علی شاہ کا قاضی کو خط ، قرآن اُٹھاؤ ،سچ بولو 
کیپشن: File photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

تحریر،عامر رضا خان:کہتے ہیں کہ جب گھر میں اختلافات ہوں تو تماشا جہان دیکھتا ہے، میرا خیال ہے صحیح ہی کہا جاتا ہے، آج عدلیہ اور وہ بھی پاکستان کی سپریم عدلیہ میں اختلافات کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑی جارہی ہے ،پہلے ہی نئے چیف جسٹس کو لیکر یوٹیوبرز اور عوام چسکے لے رہے تھے اور اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے جانے والے یا یوں کہہ لیں چند گھنٹے کے مہمان چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا ہے جس سے ججز میں موجود خلیج مزید گہری ہوتی نظر آتی ہے۔ اس خط کے مندرجات دیکھ لیتے ہیں اس کے بعد اس کے کے تناظر یا وجوہات پر بھی بات کرلیتے ہیں عمرے کی ادائیگی کے لیے حرم پاک روانگی سے پہلے لکھے گئے اس خط کو جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں ،جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لکھا ہے یہ خط جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بطور سربراہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی لکھا گیا  ہے ۔
"لوگ ہمارے اعمال دیکھ رہے ہیں اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی، ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ بننے تک خصوصی بنچز کا حصہ نہیں بنوں گا"۔
خط میں سر تھامس مورے کا قول بھی نقل کیا گیا ہے، یہ قول انہوں نے معروف تاریخی ناول 
“A Man For All SEASONS” by Robert Bolt 
کے تاریخی ناول سے کشید کیا ہے جس میں ایک بادشاہ اور کرپٹ پوپ کا واقعہ ہے جب بادشاہ اولاد کی خاطر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے اور طلاق دینا چاہتا ہے، چھوڑیں بادشاہ کے قصے کو آپ قول پڑھیں جو اس ناول کا ایک کردار بولتا ہے۔
“I think that when Statesmen forsake their own private conscience for sake of their public duties they lead their country by a short route to chaos”
اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہوگا 
" میرے خیال میں جب کوئی اہم عہدے پر موجود شخصیت اپنے فرائض منصبی میں اپنے ذاتی ضمیر کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو وہ اپنے ہی ملک کو افراتفری کا شکار کرنے کی جانب لے جاتے ہیں "
یہ پہلا موقع نہیں ہے کسی انصافی جج نے انگلش ناول یا ڈرامے کا حوالہ دیا ہے، اس سے پہلے آپ کو یاد ہوگا، سپریم کورٹ کے کھوسہ نامی جج نے بھی ایک کیس میں پاکستان کے منتحب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے ( پانامہ بنام اقامہ ) کیس میں ایک انگریزی ناول گاڈ فادر کا حوالہ دیا تھا اور عوامی نمائندوں کو "سسلین مافیا" کا نام دیا تھا ، اور آج وہ سب تاریخ کا حصہ ہے ، صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں ایک طبقہ انگریزی ناول اور ڈراموں کا فین ہے لیکن عدالتی معاملات میں ان ڈراموں ناولوں کی گونج انصافی ججز سے سننے کوملتی ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط کے بعد نیک سفر پر روانگی اختیار کیا ہے، اللہ پاک ان کا یہ سفر مبارک فرمائیں اور جو جو غلطیاں جانے انجانے میں اُن سے ہوئیں ہیں اسے نظر انداز فرما کر معاف فرمائیں ۔

 ضرورپڑھیں:یحییٰ آفریدی کا پہلا تحفہ ، بجلی سستی اور سستی اور سستی 
اب آئیں قرآن کی گواہی کی جانب عدالتوں میں قرآن پاک پر حلف اٹھا کر گواہیاں دی جاتیں تھیں لیکن لالچ نے انسان کو اتنا گمراہ کیا کہ لوگوں نے اسے پروفیشن بنالیا جس پر عدالتی افراد کی فرمائش پر قرآن پاک پر عدالتوں میں حلف اٹھانا بند ہوا اور اب ایک کاغذپر لکھے حلف نامے کو پڑھا جاتا ہے جس کی تحریر یہ ہوتی ہے کہ " میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر گواہی دے رہا ہوں میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا اور سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا " پر اکتفا کیا جاتا ہے لیکن دکھ کی بات ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے آج بھی گواہی دینے سے باز نہیں آتے لیکن اب ایک بار پھر قرآن اٹھوانے کا ذکر عدالت میں آگیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ  بانی پی ٹی آئی سے عدالتی حکم کے باوجود وکلاء کی ملاقات نہ کرانے پر توہینِ عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی ،یہ سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان سماعت کر رہے تھے حکومتی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے لاء اینڈ آرڈر صورتحال کی بنیاد پر جیل ملاقاتوں پر پابندی لگائی ہے جس پر عدالت  نے سوال اٹھایا وکلاء کی ملاقاتوں پر بھی پابندی لگا دی گئی؟ جس نے یہ نوٹیفکیشن ایشو کیا اس نے بھی توہینِ عدالت کی ہے،حکومتِ پنجاب نے اگر وکلاء کی ملاقات روکی تو توہینِ عدالت کی ہے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے مزید کہا کہ اس پر وزارتِ داخلہ رپورٹ جمع کرائے کہ کیا سیکیورٹی وجوہات تھیں، مجھے پتہ ہے آپ میرے آرڈر پر عمل نہیں کرینگے لیکن مجھے آرڈر کرنے دیں، سپریٹنڈنٹ اسی طرح جس طرح خود آئے ہیں، بانی پی ٹی آئی کو بھی عدالت میں پیش کر سکتے ہیں،بانی  پی ٹی آئی کو آپ عدالت میں پیش کرینگے تو یہ عدالت عالیہ ہو گی، آپ سیکیورٹی کے انتظامات کریں اور بانی پی ٹی آئی کو عدالت میں لائیں،اگر نہیں لا سکے تو کل آپ عدالت کو بتائیں گے کہ کیوں پیش نہیں کر سکے، مجھے سیکیورٹی تھریٹس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، حکومت کو یہ بتانا پڑے گا کہ کیا ایسے سیکیورٹی تھریٹس تھے جو وکلاء کی ملاقات بھی روکی گئی، یہ نوٹیفکیشن میرے آرڈر کی خلاف ورزی ہے، حکومت کو عدالت آ کر جواز پیش کرنا ہو گا کہ ملاقاتوں پر پابندی کیوں لگائی؟۔ یہ آپ شیر آیا شیر آیا والا کام کرتے ہوئے لیٹر لکھنا شروع کر دیتے ہیں، اس سیکیورٹی تھریٹ کی حقیقت کیا ہے میں اسکی تہہ میں جاؤں گا، عدالت کیلئے کچھ سیکرٹ نہیں ہےجنہوں نے یہ رپورٹس لکھی ہیں میں اُن کو اِن کمرہ عدالت میں بلاؤں گا، میں رپورٹس لکھنے والوں سے قرآن پاک پر حلف لوں گا، آپ کہتے ہیں کہ سیکورٹی تھریٹس اہم ہیں لیکن انصاف تک رسائی اہم نہیں ہے؟

 نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر