سٹی42: آئس لینڈ بھر میں خواتین نے ملک میں صنفی مساوات کو بڑھانے کے لیے منگل کو عام ہڑتال کی، آئس لینڈ کی خاتون وزیراعظم بھی اس ہرٹال میں شریک ہوئیں اور انہوں نے دن بھر کام نہیں کیا۔
مہم کے منتظمین نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر بتایا کہ آج منگل کے روز آئس لینڈ میں خواتین نے صنفی مساوات کے حصول کے لئےہڑتال کی ہے۔ یہ ہڑتال اس سلسلہ کی ساتویں ہڑتال ہے، پہلی ہڑتال 24 اکتوبر 1975 کو ہوئی تھی۔
آئس لینڈ میں "خواتین کے دن کی چھٹی" یا کیوینفری ("Kvennafrí") کے نام سے جانے والی ہڑتال کا اہتمام ، آئس لینڈ میں خواتین کو کام کے معاوضہ کے حوالے سےسسٹمیٹک امتیاز اور خواتین پر تشدد کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کیا گیا۔۔
منگل کے روز ہڑتال کرنے والوں میں ملک کی وزیر اعظم کیٹرن جیکوبسڈوٹیر بھی شامل تھیں، جنہوں نے جمعہ کو نیوز سائٹ آئس لینڈ مانیٹر کو بتایا کہ وہ عورتوں کی ہڑتال کے دن کام نہیں کریں گی اور حکومت کو دیگر خواتین ارکان سے توقع ہے کہ وہ "آئس لینڈ کی خواتین کے ساتھ یکجہتی کے طور پر" ایسا ہی کریں گی۔
کیٹرن جیکوبسڈوٹیر نے کہا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہم ابھی تک مکمل صنفی مساوات کے اپنے اہداف تک نہیں پہنچے ہیں اور ہم اب بھی صنفی بنیاد پر اجرت کے فرق سے نمٹ رہے ہیں، جو کہ 2023 میں ناقابل قبول ہے۔ ہم اب بھی صنفی بنیاد پر تشدد سے نمٹ رہے ہیں، جو کہ میری ترجیح رہی ہے۔
آئس لینڈ میں خواتین کی تنخواہوں کے حوالے سے برابری کیلئے ہڑتال کو کو سرکاری اداروں نے ہر سطح پر سپورٹ کیا ، اور اسے ملک کی سب سے بڑی فیڈریشن آف پبلک ورکرز یونین، فیڈریشن آف دی پبلک ورکرز یونین ان آئس لینڈ (BSRB)، آئس لینڈ کی نرسز ایسوسی ایشن اور آئس لینڈ کی خواتین کی ایسوسی ایشنز کی بھی حمایت حاصل تھی۔
واضح رہے کہ اس وقت آئس لینڈ دنیا میں عورتوں اور مردوں کی عملی برابری کے حوالے سے بہترین ملک شمار ہوتا ہے۔ مسلسل 14 سالوں سے، ورلڈ اکنامک فورم (WEP) آئس لینڈ کو صنفی مساوات کے لیے بہترین ملک قرار دیتا آ رہا ہے، ورلڈ اکنامک فورم کےمطابق ملک نے صنفی فرق کا 91.2% ختم کر دیا ہے۔
منگل کے روز کی ہڑتال کےمنتظمین نے مردوں سے مطالبہ کیا کہ وہ گھر اور کام پر "اضافی ذمہ داریاں سنبھال کر" ہڑتال کرنے والی خواتین کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں۔
دریں اثنا، آئس لینڈ کی حکومت نے حال ہی میں شروع کیے گئے ایک تحقیقی منصوبے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے جو کہ روایتی طور پر مردوں کے زیر تسلط اور عورتوں کے زیر تسلط پیشوں کے درمیان اجرت کے تفاوت پر مرکوز ہے۔
آئس لینڈ کی خاتون وزیراعظم نے کہا، "ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ملازمتیں کس طرح مختلف ہیں. کیونکہ ہمارا اندازہ ہے ہیں کہ اجرتوں میں جو فرق موجود ہے وہ اس پیشوں پر مخصوص جینڈرز کے تسلط کی وجہ سے ہے۔
2019 میں CNN کے لیے لکھتے ہوئے، Jakobsdóttir نے بتایا تھا کہ کس طرح تارکین وطن اور نسلی اقلیتی خواتین کی شہادتوں نے آئس لینڈ میں ایک اہم موڑ دیا۔ "انہوں نے انکشاف کیا کہ جب کہ آئس لینڈ نے صنفی مساوات پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ پیش رفت کی ہے، لیکن ہم نے اب بھی صنفی، نسلی اور طبقاتی ناانصافیوں کا کافی حد تک مقابلہ نہیں کیا،" آج مزید چار سال گزرنے کے بعد بھی وہ عورتوں کی ہڑتال میں شریک ہیں اور آئس لینڈ کی عورتوں کے لئے مزید بہتری چاہتی ہیں۔
" آئس لینڈ کے صدر گڈنی جوہانسن نے عورتوں کی اس ہڑتال کے حوالے سے آج ایکس پر پوسٹ کیا کہ آئس لینڈ میں خواتین آج 1975 میں مشہور #womensdayoff کے بعد 7ویں بار ہڑتال کر رہی ہیں،" "مساوات کے لیے ان کی سرگرمی نے آئس لینڈ کے معاشرے کو بہتر کے لیے بدل دیا ہے اور آج بھی بدلنے کا یہ عمل جاری ہے۔"
آئس لینڈ کی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک ٹویٹ میں کہا: "آج ہم 1975 کے بعد پہلی مکمل دن کی خواتین کی ہڑتال کے واقعے کو دہرا رہے ہیں، اس دن کے موقع پر جب آئس لینڈ کی 90 فیصد خواتین نے کام اور گھریلو فرائض دونوں سے چھٹی کی تھی، جس کے نتیجے میں یہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس ہڑتال کے نتیجہ میں آئس لینڈ میں جو تبدیلیاں آئیں ان میں کسی ملک میں دنیا کی پہلی خاتون کا صدر مملکت منتخب ہونا بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ آج کی ہڑتال میں شریک خواتین کو آضروں کی جانب سے تنخواہ میں کٹوتی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ، آئس لینڈ کے آجروں نے تاریخی طور پر ہڑتالوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اس میں حصہ لینے والے ملازمین کی تنخواہوں کو روکا یا بند نہیں کیا جاتا۔
واضح رہے کہ گلوبل سطح پرصنفی مساوات کے سلسلہ میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے خبردار کر رکھا ہے کہ صنفی مساوات کے حصول میں دنیا کو 300 سال لگیں گے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 10 میں سے نو افراد خواتین کے خلاف تعصب کا شکار ہیں۔