سٹی42: جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ2018 سے زیادہ 2024 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پھر جبری طور پر ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ حکومت سازی کی گئی ۔
مولانا فضل الرحمان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اقلیتی نمائندگی حکومت کر رہی ہے ۔ پپلز پارٹی کا نمبرز پورے کرنے کے سوا حکومت میں کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ مینیجمنٹ اسٹیبلشمنٹ نے کی ہے۔ ہم اس کے خلاف میدان عمل میں نکلے ہیں اور ملک بھر میں تحریک کا آغاز کر چکے ہیں۔ یکم جون کو مظفر گڑھ پنجاب میں عوامی جلسہ عام ہوگا۔ ہم نے پوری زندگی اس جمہوری نظام کے ساتھ گذاری ہے ۔ اس تجربہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ اس ملک سے لے کر امریکہ تک جمہوریت فقط دہوکہ کا نام ہے۔ 2018 میں بھی ہم نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کے خلاف میدان عمل میں تھے ۔ اب بھی میدان عمل میں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے الزام لگایا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ٹھان لی ہے کہ وہ ہر حال میں اپنی مرضی کے نتائج مرتب کریں گے۔ چاہے پھر عوام اس کو کسی نظر سے بھی دیکھیں ۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس صورتحال کو ہم تسلیم نہیں کرتے ، ہم غلام بن کر زندگی نہیں گذار سکتے۔ ملک چھوڑنے کی نوبت آئی تو ملک چھوڑ دیں گے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی غلامی منظور نہیں۔
انہوں نے افغانستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہ میں نے افغانستان میں جاکر پاکستان کے لئے بہتر تعلقات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ افغان حکمران بھی پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لئے تیار تھے۔ لیکن الیکشن میں ہماری قوت کو منصوبہ بندی کے ساتھ توڑا گیا۔ جو جماعت پاکستان کے لئے خدمت کرے اسی کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی ۔ اسی طرح دیگر پڑوسی ممالک کےساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ اس خطہ کو متحد ہونا چاہئے اور ایشیا بلاک بننا چاہئے۔ لیکن اس میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ انڈیا کے ساتھ ہمارا جھگڑا کشمیر پر تھا ۔ اب کشمیر جب ان کو دے دیا تو یہ تنازعہ اب ختم ہونا چاہئے۔