تحریر،عامر رضا خان :امریکہ میں کرکٹ کا کھیل آج بھی اجنبی اور پرسرار ہے مگر کیوں؟ اس سوال کا جواب تو سطور زیریں میں لکھا ہی جائے گا لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ ورلڈ کپ ٹی 20 ٹورنامنٹ کی آمد آمد ہے، شائقینِ کرکٹ کے دلوں کی دھڑکنیں تو تیز ہیں کرکٹ دیکھنے کو لیکن اس بار اس ورلڈ کپ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کرکٹ تاریخ کا پہلا ایونٹ ہے جس کی میزبانی خود کو سُپر پاور کہلانے والا امریکہ ، ویسٹ انڈیز کے ساتھ ملکر کر رہا ہے اور یہی وہ بات ہے جس نے اس ورلڈ کپ کے انعقاد کے شوق کو چار نہیں آٹھ دس مزید چاند لگا دئیے ہیں کہ سب اس سوچ میں گُم ہیں کہ کہاں امریکہ کہاں کرکٹ؟
یہ تو ملک ہی اس کھیل سے نفرت کرنے والوں کا ہے ، جی ہاں ہم میں سے بہت کم لوگ شائد اس تاریخ سے واقف ہوں کہ موجودہ امریکی معاشرہ اپنے ابا ؤ اجداد گوروں سے اس قدر شدید نفرت رکھتا تھا کہ اُس نے اپنے کھیلوں میں بھی اس کا اظہار کیا جیسے کرکٹ برطانیہ کا قومی کھیل ہے تو امریکیوں نے اس سے ملتے جلتے کھیل بیس بال کو ایجاد کرلیا، فٹ بال اگر انگریزوں کے ہاں مقبول تھا تو امریکہ میں امریکن سوکر کے نام سے جارحانہ کھیل کو اپنا لیا گیا اور یوں امریکہ میں کرکٹ وہ مقبولیت حاصل نا کرسکی جو اسے نوآبادیاتی نظام میں تاج برطانیہ کے غلام عوام میں حاصل ہوئی ۔
آج بھی امریکہ میں جو کرکٹ کھیلی جاتی ہے اُس میں زیادہ بڑی تعداد پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کے اُن آباد کاروں کی ہے جن کے آبائی ملکوں میں یہ کھیل بہت زیادہ مقبول ہیں ، امریکہ میں کرکٹ کے فروغ کے لیے پاکستانی نژاد لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے یہ افراد امریکہ میں مقبول بیس بال اور باسکٹ بال جیسے کھیلوں کی جانب کبھی راغب نا ہوئے کہ امریکہ میں کسی بھی تعلیمی و کمرشل اداروں میں کرکٹ سیکھانے اور کھلانے کا کوئی رواج نہیں ہے ۔
امریکہ میں آباد بھارتی ، بنگالیوں ، ویسٹ انڈیز اور سب سے بڑھ کر پاکستانیوں نے کرکٹ کے لیے اس اجنبی ملک میں کرکٹ کھیلنے کی بنیاد رکھی ، اس میں بھارتی اور بنگالی بھی شامل تھے لیکن اُن کا زیادہ کردار تنظیمی تھا انتظامی نہیں جس کے باعث آج بھی امریکہ میں کرکٹ کا بانی پاکستان نژاد افراد کو ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ امریکہ کے رہنے والے دیگر قومیتوں کے لیےتو کرکٹ آج بھی ایسے ہی ایک اجنبی اور پراسرار کھیل ہے جیسے ہم برصغیریوں کے لیے امریکن فٹبال لیکن اب رفتہ رفتہ کچھ امریکیوں کو اس کھیل میں دلچسپی بھی ہونے لگی ہے کیونکہ اُن کے اردگرد نو آباد افراد اس کھیل کو کھیلنے کا موقعہ اور بہانہ تلاش کرتے ہیں ، عید ہو یا دیوالی وہاں آباد ان افراد کے لیے کسی تھیم پارک میں جانے سے بھی زیادہ دلچسپی کرکٹ میچ کھیلنے میں ہوتی ہے، یہاں کرکٹ ایک کھیل ہی نہیں پکنک بھی ہے جس میں ایک جانب باربی کیو بن رہا ہوتا ہے تو دوسری جانب روائتی کھانوں سے تواضع کی جاتی ہے ،یہاں آباد پاکستانی بھارتیوں ، بنگالیوں کو اکٹھا رکھنے میں کرکٹ کا خاص مقام ہے ۔
امریکہ میں کرکٹ نے اپنے پاؤں جمانے کا آغاز ٹیکساس اور کیرولینا ریاستوں میں کرکٹ اکیڈمیوں سے ہوا جہاں بیس بال کی گراؤنڈز کو حاصل کرنے کے بعد کرکٹ کھیلائی جانے لگی۔ پاکستان سے امریکہ جاکر آباد ہونے والوں نے پاکستان سے ہی سابق کرکٹرز کو امریکہ بلانا شروع کیا تاکہ وہاں کلبز میں کھیلنے والے بچوں کو کرکٹ کے اسرار و رموز سیکھائے جاسکیں ، پاکستانی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے جلال الدین ، سمیع اسلم ، منصور اختر ، احسان عادل نے بھی کھیلنے اور کوچنگ کے لیے امریکہ کا انتخاب کیا اور یوں امریکہ کے لیے پرسرار سمجھا جانے والا کھیل اب امریکہ میں اجنبی نہیں ہے ۔
آج سے چند روز بعد امریکہ میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کھیلا جائے گا، دنیا بھر کے نیوز چینلز ان کو ٹیلی کاسٹ کریں گے، پاک، بھارت ٹاکرا ہوگا اور سب سے بڑھ کر امریکی ٹیم بھی پہلی مرتبہ اس ورلڈ کپ میں شرکت کرئے گی تو اس کھیل میں امریکیوں کی دلچسپی مزید بڑھ جائے گی۔ امریکی ٹیم جس کے بیشتر کھلاڑی پاکستان ، بھارت ، ویسٹ انڈیز نژاد ہیں نے بنگلہ دیش کو دو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست دیکر ثابت کردیا ہے کہ اس کھیل میں اب امریکہ بھی کسی سے پیچھے رہنے والا نہیں ہے یہ تو دیس ہی آباد کاروں ، پردیسیوں کا دیس ہے اس مین اگر کرکٹ کو فروغ ہوگا تو امریکی معاشرے میں مزید یکجہتی کو ہی فروغ ملے گا۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر