تحریک انصاف کا ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوسناک ہے: سپریم کورٹ

24 Mar, 2022 | 03:09 PM

Muhammad Zeeshan

ویب ڈیسک:  سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی، تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوسناک ہے اور جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن ، جے یو آئی اور سپریم کورٹ بار نے صدارتی ریفرنس کے تحریری جوابات جمع کرادیے۔

عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتیں بھی تحریری جوابات جمع کروائیں، اس سے سماعت میں آسانی ہوگی۔

جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں۔ اس آبزرویشن پر عدالت میں قہقہ لگا۔ اٹارنی جنرل بولے کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے ۔

اٹارنی جنرل کے  دلائل:

اٹارنی جنرل نے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا کہا، آرٹیکل 63A کے تحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں، وزیراعظم کے الیکشن اور تحریک عدم اعتماد میں ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں، آرٹیکل 63A کی سرخی ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے۔

سپریم کورٹ بار کا موقف:

سپریم کورٹ بار نے عدم اعتماد کی تحریک میں رکن پارلیمان کے ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ ڈالنا رکن قومی اسمبلی کا انفرادی حق ہے اور کسی سیاسی جماعت کا حق نہیں۔

سپریم کورٹ بار نے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ڈالا گیا ہر ووٹ گنتی میں شمار ہوتا ہے، ہر رکن قومی اسمبلی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں خودمختار ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جاسکتا، عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت چلاتے ہیں۔ آرٹیکل 63 کے تحت کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے پہلے نہیں روکا جاسکتا، آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ڈائریکشن کیخلاف ووٹ ڈالنے پر کوئی نااہلی نہیں۔

جمعیت علمائے اسلام ف کا موقف:

جے یو آئی نے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی میں پارٹی الیکشن نہیں ہوئے جماعت سلیکٹڈ عہدیدار چلا رہے ہیں، جو آرٹیکل 63 اے کے تحت ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی ہدایت نہیں کر سکتے۔ اسپیکر کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا اور آرٹیکل 63 اے پہلے ہی غیر جمہوری ہے، آزاد جیت کر پارٹی میں شامل ہونے والوں کی نشست بھی پارٹی کی پابند ہو جاتی ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ ریفرنس سے لگتا ہے صدر ، وزیراعظم اور اسپیکر ہمیشہ صادق اور امین ہیں اور رہیں گے، پارٹی کیخلاف ووٹ پر تاحیات نااہلی کمزور جمہوریت کو مزید کم تر کرے گی۔

جے یو آئی نے کہا کہ لازمی نہیں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی ریفرنس پر رائے دی جائے، کسی رکن کیخلاف نااہلی کا کیس بنا تو سپریم کورٹ تک معاملہ آنا ہی ہے، سپریم کورٹ نے پہلے رائے دی تو الیکشن کمیشن کا فورم غیر موثر ہو جائے گا، عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کرنے سے اجتناب کرے۔

مسلم لیگ ن کا موقف:

مسلم لیگ ن نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کو عدالت کے قیمتی وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے اور 95واضح ہے، ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، جو گنتی میں شمار بھی ہوگا، صدارتی ریفرنس قبل از وقت اور غیر ضروری مشق ہے، سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے آئینی ترمیم کا نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کا موقف:

پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کی انفرادی حثیت نہیں ہوتی۔

تحریک انصاف نے تاحیات نااہلی پر کوئی رائے نہیں دیتے ہوئے کہا کہ تاحیات نااہلی پر عدالت جو بھی رائے دے اس پر مطمئن ہوں گے، الیکشن کمیشن عدالتی رائے کے نتیجے میں اس پر عملدرآمد کا پابند ہو گا۔

مزیدخبریں