(امانت گشکوری)پی ٹی آئی امیدواروں نے آزاد ہوکرکیوں خودکشی کی؟آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ ہی نہ ہوتا،چیف جسٹس کے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس،چیف جسٹس نے کہا کہ آئین سے ہٹ کر کوئی جج فیصلہ نہیں دے سکتا،یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا،مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے،جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے،چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں۔
الیکشن کمیشن نےسپریم کورٹ میں اپنا تحریری جواب جمع کروا رکھا ہے۔کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے پہلے کچھ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں،عدالتی فیصلوں میں آئینی تشریح کیلئے نیچرل حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا،آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں،الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی،الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظرانداز کیا۔
چیف جسٹس کافیصل صدیقی سے مکالمہ
چیف جسٹس نےفیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے تو آپ آئین کی درست وضاحت کر دیں،الیکشن کمیشن کو چھوڑ دیں اپنی بات کریں،آئین و قانون کے مطابق بتائیں کہ سنی اتحاد کونسل کو کیسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں،جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ کر آئی ہیں انکو عوام نے ووٹ دیا ہے،ایسی سیاسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔
فیصل صدیقی کی جانب سے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 کا حوالہ دیا گیا کہتے ہیں کہ آئینی شقوں کے کچھ بنیادی پہلو ہیں،ایک پہلو تو یہ ہے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی،دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست پر دی جائیں گی،تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہر جماعت کو یہ نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔
جسٹس عرفان سعادت بولے کہ آپ کہہ رہے جو نشستیں جیت کر آئے انکو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں،جب سنی اتحاد کونسل نے الیکشن ہی نہیں لڑا تو نشستیں جیتنے والی بات تو ختم ہوگئی،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت تسلیم کیا،انتحابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت ختم تو نہیں ہوجاتی،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے الگ کیوں ہوئے،پی ٹی آئی امیدواروں نے آزاد ہوکر کیا خودکشی کی ہے،آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد ان نشستوں کو جوائن کرنا کہیں گے یا جیت کر آنا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کیلئے ایک ہی انتخابی نشان پر الیکشن لڑنا شرط نہیں ،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم یہ نہیں سنیں گے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی،ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔
بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے:چیف جسٹس
چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں،آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراؤ میں آتا ہے،سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا،آئین پر عمل نہ کر کے ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں،میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے،ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے،پی ٹی آئی کے صدر تھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہ دی،پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی،پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی،بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے،کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں،سپریم کورٹ کا 3 رکنی بنچ تھا جو انتخابات نہ کروا سکا،ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے،ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں،مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے،آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 67 میں لکھا ہے کہ آزاد امیدوار وہ ہے جس کو پارٹی ٹکٹ نہ دے،الیکشن کمیشن سیاسی جماعت اور امیدوار کے درمیان کے معاملے میں اپنا اختیار کیسے استعمال کر سکتا ؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا،وکیل فیصل صدیقی بولے کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے،چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں،ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن سے ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں،سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان کیا ہے؟وکیل فیصل صدیقی بولے کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے، جسٹس منیب اختر بولے کہ پی ٹی آئی کہہ رہی ہے یہ امیدوار پی ٹی آئی کے ہیں،اگر الیکشن کے بعد بھی وہ پی ٹی آئی کے رکن ہیں تو دوبارہ شمولیت کی ضرورت کیوں ہے،آئین کا دیباچہ بڑا واضح ہے،آزاد اراکین کسی بھی وقت کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں،اگر 3 دنوں میں شمولیت اختیار کی جاتی تو متناسب نمائندگی کے تحت مخصوص نشستیں ملیں گی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ لوگوں نے تو پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا،پی ٹی آئی کے امیدوار دوسری جماعت میں چلے گئے،جن لوگوں نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دیا انکا کیا ہوگا،سنی اتحاد کونسل کو تو ووٹ نہیں ملے۔
’پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کیوں نہ کرائے؟‘
چیف جسٹس نے ریمارکس ذئیے کہ اگر پارلیمان میں 90 فیصد آزاد امیدوار جیتتے ہیں تو مخصوص نشستیں باقی10 فیصد جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو ملیں گی،بتائیں الیکشن کمیشن منتیں کرتا رہا ،پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کیوں نہ کرائے؟ فیصل صدیقی بولے کہ بلے کے نشان کیس کی نظرثانی زیر التوا ہے اس بارے میں بات نہیں کر سکتا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب آپ کا دل کرتا ہے اس بارے میں بات کر لیتے ہیں،بتایا کیوں نہیں کہ بلے کے انتخابی نشان سے متعلق نظرثانی زیر التوا ہے؟ حامد خان اکثر پیش ہوتے ہیں مگر ایک مرتبہ نہیں بتایا کہ نظرثانی دائر کی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی موجودہ انتخابات میں ہوا،جنھوں نے پریس کانفرنس نہیں کیں انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کے علم میں ہیں،کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے،آئین اور بنیادی حقوق کی جو پامالی کی گئی کیا اس پر خاموش رہا جائے،میں آپکی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نےفیصل صدیقی سے مکالمہ
جسٹس منصور علی شاہ نےفیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کی جماعت سیاسی ہے؟اگر سنی اتحاد سیاسی جماعت نہیں تو آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستوں کا کیا ہوگا؟متناسب نمائندگی کا اصول سنی اتحاد پر کیسے لاگو ہوگا،کیا آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستیں خالی رہیں گی؟وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جاسکتیں،جسٹس منصور علی شاہ نے پھر پوچھا کہ جو جماعت سیاسی نہیں اور الیکشن نہیں لڑی اس کی مخصوص نشستیں کہاں جائیں گیں،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں،سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے طریقہ کار دیکھنا پڑے گا۔
چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ سیکشن سے ایک لفظ لے کر اپنے کیس کو نہیں چلا سکتے،فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں الیکشن کے بعد ملتیں ہیں تو الیکشن کمیشن نیا شیڈول جاری کرے،جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ آپ نے بتانا کہ آپ سیاسی جماعت ہیں لسٹ کو ہم بعد میں دیکھ لیتے،فیصل صدیقی نے کہا سیاسی جماعت کو جیتی گئی نشستوں سے زیادہ نہیں مل سکتیں، میرا نقطہ یہ ہے کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ جو نشستیں جیتی گئی ہیں انہی کے حساب سے مخصوص نشستیں ملیں گی،اگر آپ سیاسی جماعت نہیں تو خالی نشستیں کہاں جائیں گی،اگر10 لوگ کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوتے تو کیا ان کی سیٹیں خالی رہ جائیں گی؟ جو سیاسی جماعت ہی نہیں اس کو مخصوص نشستیں نہ ملیں تو کہاں جائیں گیں،وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو دیکھنا ہے کہ خالی نشستوں کو کیسے پر کرنا ہے، سپریم کورٹ کو پھر دیکھنا ہوگا کہ آزاد امیدوار کون ہیں،اگر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں تو وہ نشستیں خالی رہیں گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ ایک رکن بھی پارلیمنٹ میں خالی نہیں چھوڑا جا سکتا،کیا سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا منشور ایک ہے،وکیل نے جواب دیا کہ نہیں سنی اتحاد کونسل کا منشور پی ٹی آئی سے الگ ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کل کو سنی اتحاد کونسل کے ارکان یہ جماعت بھی چھوڑ جائیں تو کیا ہوگا،وکیل فیصل صدیقی بولے کہ سنی اتحاد سیاسی جماعت ہے یا نہیں اس پر سوال اٹھا ہی نہیں،الیکشن کمیشن نے اقرار کیا کہ سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے،اگر سپریم کورٹ اپیل منظور کرتی تو پھر 3 روز میں فہرست دینے سے کام شروع ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟
فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے ایک سوال پوچھا تھا اس کا جواب بھی دیتا ہوں،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میرے سوال کا جواب دینے کیلئے آپ کو باقی ججز کی اجازت چاہیے؟جسٹس یحیی آفریدی بولے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں،کیا آپ کی پارٹی کا آئین آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں اس سوال کا جواب اس لئے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن آج بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت مانتا ہے،ایوان کو نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا،میری نظر میں ایوان کو مکمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،الیکشن کمیشن ووٹرز کے حقوق کا محافظ ہونے کے بجائے مخالف بن گیا ، مخصوص نشستیں سنی اتحاد کو ملنی ہیں یا پی ٹی آئی کو یہ الیکشن کمیشن نے طے کرنا تھا،ہمارے ہوتے ہوئے بھی بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، ملک آئین کے مطابق چلا ہی کب ہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وقت آگیا ہے ملک آئین کے مطابق چلایا جائے،
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہوگئے۔
وکیل اسپیکرخیبر پختونخوا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ خلاف آئین ہے،فیصل صدیقی تفصیل سے دلائل دے چکے،فیصل صدیقی بولے کہ میں اس کا دفاع نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل نے غلطیاں نہیں کیں، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کا انضمام ہوجاتا تو معاملہ حل ہوتا مگر نہیں ہوا،جسٹس حسن اظہر رضوی بولے کہ کیا ووٹرز نے اعتراض کیا کہ آپ نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کیوں کی؟کسی نے آرٹیکل لکھا ہو یا کوئی پریس کانفرنس یا احتجاج کیا ہو؟وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ہمارے خلاف احتجاج اور اعتراض صرف الیکشن کمیشن نے کیا،الیکشن کمیشن نے کبھی سنی اتحاد کونسل کو نوٹس نہیں کیا۔
ہر غیر متعلقہ کیس پر از خود نوٹس لیا جاتا رہا مگر یہ تو پرفیکٹ کیس تھا: جسٹس اطہر من اللہ
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سب کے درمیان پی ٹی آئی کہاں ہے؟وکیل سلمان اکرم راجہ بولے کہ کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہی ہیں،جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے، چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کیا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ راجہ صاحب آپ اس عدالت کے سامنے ہیں جو بنیادی حقوق کی محافظ ہے،اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے الیکشن سے متعلق بھی کیس زیر التوا ہے،ہر غیر متعلقہ کیس پر از خود نوٹس لیا جاتا رہا مگر یہ تو پرفیکٹ کیس تھا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا رکھا ہے ۔جواب میں کہا گیا کہ 24 دسمبر کی ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی فہرستیں جمع نہیں کرائیں ،امیداروں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا انتخابی نشان مانگا بعد میں خود ہی دستبردار ہو گئے،اس کے بعد یہ امیدوار آزاد قرار پائے اور الیکشن کے بعدسنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں نہ دینے کا چار ایک سے فیصلہ دیا، پشاور ہائی کورٹ نے بھی سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔