اظہر تھراج| پی ٹی آئی کے اہم اتحادی ساتھ چھوڑ رہے ہیں، تحریک انصاف کے اندر سے اختلافات کی خبریں آرہی ہیں، ڈھول کا پول کھل رہا ہے، وفاق اور پنجاب حکومت بنانے کا اہم کردار لندن جاچکا ہے، ہیلی کاپٹر کو بریکیں لگ چکی ہیں، اے ٹی ایم مشینیں خالی ہیں؛ ن لیگ، پیپلز پارٹی اوردیگر اپوزیشن جماعتیں مسلسل وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ لوگوں کا ’’تبدیلی‘‘ سے اتنا جلدی جی بھر گیا؟ جس حکومت کے قائم ہونے کے صرف ڈیڑھ دو سال بعد ہی استعفیٰ مانگ لیا جائے، اسے ہم آئیڈیل تو نہیں کہہ سکتے۔ اپوزیشن کی ڈیمانڈ اپنی جگہ، اپوزیشن کا تو کام بھی یہی ہوتا ہے کہ حکومت میں سے کیڑے نکالے، اپنے لیے راہ ہموار کرے۔ حکومتی ارکان، پی ٹی آئی ورکرز اور کپتان کو آئیڈیل ماننے والوں میں اتنی بے چینی کیوں ہے؟ فواد چوہدری کہتے ہیں ہماری حکومت کے پاس پانچ چھ ماہ ہیں، وزیراعظم نے بھی کابینہ پر واضح کردیا ہے کہ ان پانچ چھ ماہ میں کچھ کرلو اگر کر سکتے ہوتو، ورنہ…
جب وزیراعظم ہینڈسم ہے، ایمان دار ہے، ساری جائیداد ملک میں ہے، باہر کوئی اثاثے نہیں، عوام سے کچھ چھپاتا نہیں، اپنے دور حکومت میں کرپشن نہیں کی، اپنے خرچے پر گھر چلاتا ہے، اپنی جیب سے ملازموں کو تنخواہ دیتا ہے، وزیراعظم ہاؤس آنے والوں کو صرف چائے پلاتا ہے، دودھ کےلیے رکھی گئی بھینسیں تک بیچ دیں، گاڑیاں کم کردیں، جہاں بھی جاتا ہے صرف ہیلی کاپٹر استعمال کرتا ہے، پورے ملک کو اسلام آباد اور نتھیا گلی سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دیوار کے پیچھے کیا ہورہا ہے؟ پہلے ہی جان جاتا ہے؟ بہترین سائنسدان، باصلاحیت ڈاکٹر، مذہبی گفتگو کرے تو بہت بڑا مبلغ، معیشت کی بات ہو تو ماہر معاشیات، ملکوں کی سرحدوں کا ذکر ہوتو بہترین جغرافیہ دان، موسموں کا حال بتانے والا، دور اندیش اور حقیقت پسند وزیراعظم۔ اتنی خوبیاں ہونے کے باوجود عمران خان استعفیٰ کیوں دیں؟آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمران خان صاحب وزیراعظم ہونے کے ساتھ کچھ وزارتوں کے خود وزیر بھی ہیں۔ سب سے اہم وزارت خزانہ ہے۔ اسے دیکھا جائے تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ کتنا کام ہوا ہے، اس وقت خزانے کا حال یہ ہے کہ اب تک غیرملکی قرضوں میں دس ہزار ارب تک اضافہ ہوچکا ہے۔ معاشی حالت یہ ہے کہ 68 سال میں پہلی مرتبہ جی ڈی پی مائنس ہوچکی ہے، بجٹ تاریخ ساز خسارے میں ہے، ترقیاتی فنڈز بند ہیں، کوئی نیا منصوبہ زیر غور نہیں، کوئی اصلاحاتی ایجنڈا نہیں۔ اس لیے اگلے تین سال میں بہتری کی کوئی امید بھی نہیں۔
اسی وزارت کی جڑواں بہن وزارت تجارت ہے۔ اس کے وزیر بھی عمران خان صاحب خود ہیں۔ درآمدات کم کرنے اور برآمدات بڑھانے کا وعدہ ہوا تھا۔ برآمدات کتنی بڑھیں؟ اس کا اندازہ جی ڈی پی سے لگایا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم اور اولین ترجیح احتساب تھا، جس کے وزیر عمران خان صاحب خود اور معاون شہزاد اکبر ہیں۔ اُنیس ماہ کی مشقت کے بعد ایک دھیلا بھی کرپٹ لوگوں سے نہیں نکلوایا جاسکا۔ نواز شریف اسی طرح ایون فیلڈ میں مقیم ہیں، اسحاق ڈار کی جائیدادیں اسی طرح قائم ہیں، زرداری صاحب کے محل اسی طرح سلامت ہیں، بی آر ٹی پشاور کے کھڈے شفافیت، میرٹ کا منہ چڑا رہے ہیں، فارن فنڈنگ کیس کی فائلوں پر گرد جم چکی ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہوا ہے کہ اپوزیشن رہنما جیلوں کے چکر لگارہے ہیں اور حکومت کو طوالت مل رہی ہے۔
وزیر پٹرولیم بھی عمران خان ہیں۔ پہلے پٹرول مہنگا کیا گیا، جب عالمی مارکیٹ میں سستا ہوا تو پاکستان سے غائب ہوگیا۔ ان کے معاون خاص خود اسی کاروبار سے منسلک ہیں۔وزیر صحت بھی عمران خان صاحب خود ہیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نام کے معاون ہیں جن کی کسی بات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر ان کی بات مانی جاتی تو کورونا کا یہ حال نہ ہوتا۔ دنیا بھر سے کورونا کے نام پر پیسے اکٹھے کیے جارہے ہیں، لیکن اب تک کوئی اسپتال نہیں بنا، صحت میں قابل فخر کام نہیں ہوا، بلکہ ضد اور انا کے باعث صورتحال ہاتھ سے نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ پہلے ادویہ غائب کی گئیں، پھر علاج مہنگا کردیا گیا۔ ادویہ میں اسمگلنگ کے الگ الزامات ہیں۔
وزیر ماحولیاتی تبدیلی بھی عمران خان ہیں، جہاں تبدیلی ہی تبدیلی نظر آتی ہے۔ ملک کے چار موسموں نے اپنی نسل بڑھا کر بارہ کرلی ہے۔ وزیر پالیمانی اموربھی عمران خان ہیں، اس وزارت کے تحت قانون سازی ہمارے سامنے ہے۔ پارلیمان سے قانون پاس کروانے کے بجائے ایوان صدر میں ’’آرڈیننس فیکٹری‘‘ لگادی گئی۔ پارلیمانی تقسیم اتنی ہے کہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی ایک میٹنگ تک نہیں ہوسکی۔ جب حکمرانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہاں ہے کارکردگی تو جواب ملتا ہے کورونا وائرس!سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اپوزیشن سے اتنا خطرہ نہیں جتنا بری معیشت، کورونا کی وبا کی مس ہینڈلنگ اور برے طرز حکمرانی سے ہے۔ اگر تحریک انصاف نے ان اہم ترین معاملات کو نہ سنوارا تو پھر کسی نئے متبادل کی تلاش شروع ہو جائے گی۔ بھٹو اور نواز شریف کا متبادل بھی تو آ گیا تھا، عمران کا بھی کوئی متبادل مل ہی جائے گا۔جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو پھر ان کے سامنے کوئی ڈھال پائیدار نہیں رہتی۔ رکاوٹیں ریت کی دیواریں بن جاتی ہیں، تماشا دیکھنے والے بھی ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ ہوا کا رخ بدلنے پر کشتیوں کے رخ موڑ دیئے جاتے ہیں، صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی، چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔
نوٹ: ادارے کا رائٹر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔