ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بھارت کےسستے  آئی ڈراپس خطرناک بیکٹیریا کے کیرئیر نکلے،  4 امریکی شہری موت کے منہ میں چلےگئے

India made eye drops banned in the US, City42
کیپشن:  اپریل 2023 میں یہ اطلاع آئی تھی کہ بھارت کی کمپنی گلوبل فارما کی آئی ڈراپس کو امریکی ادارہ  ایف ڈی اے نے مریضوں کی اموات سے منسلک  قرار دے دیا تھا اور اس ہندوستانی فرم کو حفاظتی اصولوں کو توڑ نے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے امریکی اسٹوروں سے اس کے آئی ڈراپس اٹھوا دیئے۔
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: بھارت کے بنے ہوئےسستے   آئی ڈراپس خطرناک بیکٹیریا کے کیرئیر نکلے،  4 امریکی شہری موت کے منہ میں چلےگئے۔

امریکہ کے سرکاری تحقیقاتی ادارہ کی انکشاف ہوا ہے کہ بھارت کے بنے ہوئے  بیکٹریا سے آلودہ آئی ڈراپس بیکٹیریا سے آلودہ ہونے کے باعث امریکا میں کم از کم 4 افراد  فوت ہو گئے جبکہ 18 بینائی سے محروم ہوگئے۔

 اپریل 2023 میں یہ اطلاع آئی تھی کہ بھارت کی کمپنی گلوبل فارما کی آئی ڈراپس کو امریکی ادارہ  ایف ڈی اے نے مریضوں کی اموات سے منسلک  قرار دے دیا تھا اور اس ہندوستانی فرم کو حفاظتی اصولوں کو توڑ نے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے امریکی اسٹوروں سے اس کے آئی ڈراپس اٹھوا دیئے۔

ایک امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق مئی 2022 میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں سوڈومونس ایروگِنوسا نام کے بیکٹریا کے پھیلاؤ کا انکشاف ہوا تھا۔ یہ بیکٹریا جسم کے کسی بھی کمزور عضو  میں پھیل سکتا ہے اور اکثر  اوقات جان لیوا ثابت ہو تا ہے۔

وڈومونس ایروگِنوس بیکٹریا اینٹی بایوٹیک ادویات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت ڈیویلپ کر چکا ہے جس کی وجہ سےمریضوں کی صحتیابی مشکل ہوتی ہے۔

اس بیکٹریا کے پھیلاؤ کے بعد سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ Prevention (سی ڈی سی) کی جانب سے اس کے ماخذ کی تلاش کا کام شروع ہوا تو یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ یہ جان لیوا بیکٹیریا بھارت کی بنی ہوئی آنکھوں کی دوا سے پھیل رہا ہے۔ 

اس تحقیق کے  دوران وڈومونس ایروگِنوس کا شکار ہونے والے مریضوں کی تمام اشیا اور ان تمام مقامات کا جائزہ لیا گیا جہاں ان کا جانا ہوا تھا۔

سی ڈی سی کو بیکٹریا کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے میں 8 ماہ کا عرصہ لگا اور آخر تصدیق ہو گئی کہ بھارتی ساختہ آئی ڈراپس وڈومونس ایروگِنوس کے پھھیلاو کا باعث ہیں۔  سی ڈی سی نے دریافت کیا کہ بیکٹریا کو پھیلانے والے  دو  بھارتی ساختہ آئی ڈراپس مارکیٹ میں دستیاب معروف آئی ڈراپس برانڈز کے مقابلے میں 50 فیصد کم قیمت پر دستیاب تھے۔

ان آئی ڈراپس کو فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کےجاری کردہ ا نونٹری نمبروں کےڈبوں میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا لیکن  ان آئی ڈراپس کو ٹیسٹنگ اور معائنے کے مراحل سے نہیں گزارا گیا تھا۔ 

خیال کیا جا رہا  ہے کہ بھارت میں دوا ساز  فیکٹری میں تیاری کے دوران ممکنہ طور پر یہ آئی ڈراپس بیکٹریا سے آلودہ ہوئے۔

دوسری جانب بھارت کی دوا ساز کمپنی کا  دعویٰ ہے کہ آئی ڈراپس کی ٹیسٹنگ میں کوئی بیکٹریا ظاہر نہیں ہوا تھا۔ تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ایف ڈی اے کے ساتھ تعاون کیا جا رہاہے۔

واضح رہے کہ کچھ عرصہ پہلےبعض بھارتی کمپنیوں کے تیار کردہ کھانسی کے سیرپ کئی ممالک میں بچوں کی اموات کا باعث بنے تھے۔

 فروری میں  فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے بھارت کے شہر چنئی میں گلوبل فارما کے پلانٹ کا معائنہ کرنے کے بعد  اپریل میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایف ڈی اے نے 20 فروری سے ہندوستان میں گلوبل فارما پلانٹ کا 11 روزہ معائنہ کیا، اور  اس نے حفظان صحت سے متعلق کئی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کیا۔۔

فرم نے ایف ڈی اے کی ہدایت کے بعد فروری میں ہی اپنی دوائیں امریکی سٹوروں  سے واپس اٹھوا لی تھیں۔

ایف ڈی اے نے  گلوبل فارما کی مصنوعات کی امریکہ درآمد بھی روک دی تھی۔

آنکھوں کے قطرے - گلوبل فارما کے ذریعہ ہندوستان میں بنائے گئے اور دو برانڈ ناموں ڈیلسم فارماز آرٹیفیشل اور ایزری کئیر آرٹیفیشل ٹئیرز  کے تحت امریکہ میں درآمد کیے گئے تھے، ان دونوں برانڈز کو ہی امریکہ میں خطرناک بیکٹیریا کے پھیلاو سے منسلک اموات کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ 
بعد میں ان دو دواں کے ساتھ  ڈیلسم فارما کی جانب سے مارکیٹ کئے گئے آکھنوں کے مرہم کو بھی  ممنوعہ ادویات میں شامل کر لیا گیا تھا۔

بھارتی کمپنی کی ادویات کے متعلق رپورٹ میں نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ سی ڈی سی کو تشویش ہے کہ بیکٹیریا امریکی صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں قدم جما سکتے ہیں۔ سی ڈی سی کی اینٹی مائکروبیل مزاحمتی ٹیم کی لیڈ تفتیش کار مارویا والٹرز، نے یویارک ٹائمز کو بتایا کہ "میرا خیال ہے کہ ہمیں مہینوں سے سالوں تک اس ڈرامے کے اثرات کا سامنا کرنا پڑےگا۔

بی بی سی نے ان آئی ڈراپس کو مارکیٹ سے ہٹائے جانے کے متعلق اپنی سٹوری میں بتایا  کہ حالیہ مہینوں میں، بہت سی ہندوستانی فرمیں اپنی دوائیوں کے معیار کی جانچ پڑتال کی زد میں آئی ہیں، ماہرین نے ان دوائیوں کو بنانے کے لیے استعمال ہونے والے مینوفیکچرنگ طریقوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔مارچ میں، بھارت کے ڈرگ ریگولیٹر نے ماریون بائیوٹیک کا مینوفیکچرنگ لائسنس منسوخ کر دیا تھا، جس کے کھانسی کے شربت ازبکستان میں 18 بچوں کی موت سے منسلک  قرار پائےتھے۔