سٹی 42: قومی اسمبلی اجلاس میں دوسرے روز بھی کلبھوشن یادیو کے بارے میں جاری کیا گیا آرڈیننس پیش نہ ہوسکا۔وزیر قانون نے ایوان میں آرڈیننس کے بارے میں تفصیلی وضاحت پیش کردی۔
حلف اٹھانے کے بعد وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں آرڈیننس جاری کیا گیاہے۔یہ آرڈیننس نہ تو کسی مخصوص شخص کے لیے ہے اور نہ ہی این آر او ہے بلکہ یہ ہائی سکیورٹی ایشو ہے۔بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوسے متعلق آرڈیننس لا کر پاکستان نے بھارت کے ہاتھ کاٹ دیے ہیں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا،اجلاس میں تیسری بار وزیر قانون کا حلف اُٹھانے والے فروغ نسیم نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سلسلے میں جاری کیے گئے آرڈیننس پر تفصیلی وضاحت پیش کی،وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس سے کلبھوشن کی سزا ختم نہیں ہورہی اگر ایسا ہوتا تو میں خود احتجاج کرتا۔وزیر قانون نے کہا کہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ آرڈیننس جاری کرتے وقت ان سے کیوں نہیں پوچھا گیا، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ آرڈیننس جاری کرنے سے پہلے اپوزیشن سے مشاورت کی جائے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ اس آرڈیننس کی کچھ تاریخیں اہم ہیں۔تین مارچ 2016 کو کلبھوشن کو گرفتار کیا گیا اس وقت کی حکومت نے اس کو قونصلر رسائی نہ دینے کا فیصلہ کیا۔8 مئی 2017 کو بھارت عالمی عدالت انصاف میں بھارت نے کیس داخل کیا،پاکستان اس وقت آئی سی جے کی حدود سے باہر نہیں جاسکتا تھا۔
فروغ نسیم نے مزید کہنا تھاکہ آئی سی جے کے فیصلے کے مطابق ہمیں پابند کیا گیا کہ معاملہ کا موثر جائزہ اور دوبارہ غور کیا جائے۔ این آر او میں جنرل مشرف نے سزائیں معاف کردی تھیں۔یہ این آر او نہیں، کلبھوشن کی سزا معاف نہیں کی گئی۔اگر آئی سی جے کے فیصلے پر عمل نہیں کریں تو بھارت ہمارے خلاف اقوام متحدہ میں واویلا کرے گا، بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
واضح رہے کہ بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان کی وزارت قانون و انصاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ زیر حراست انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کی اپنی سزا کے خلاف نظرثانی اپیل کی پیروی کے لیے وکیل مقرر کیا جائے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں حکومت اپنی ذمہ داری پوری کر سکے۔درخواست جادھو کو فوجی عدالت سے ملنے والی سزا کے حوالے سے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس ضمن میں جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس کے تحت دائر کی گئی ہے۔اس سے قبل پاکستانی حکومت نے عالمی عدالت انصاف کے احکامات کی روشنی میں پاکستان میں موجود انڈین ہائی کمیشن کے چند سفارت کاروں کی مبینہ جاسوس کلبھوشن جادھو کے ساتھ 15 جولائی کو ملاقات کروانے کا انتظام بھی کیا تھا۔