یونیورسٹی طلبہ سے ڈی جی آئی ایس آئی کا تاریخی مکالمہ ،الیکشن ہو رہے ہیں یا نہیں ؟ 9 مئی والوں کا کیا بنے گا ؟ سوالات کی بھرمار ، وہیں ٹاپ سپائے ماسٹر کے زوردار جوابات سے لاہور کا گیریژن آڈیٹوریم تالیوں سے گونج اٹھا۔
یہ "ذکر اس پری وش کا اور انداز بیاں اپنا" والا معاملہ بنا ہوا تھا , جب بات الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے اور 9 مئی والوں کو کتنی ڈھیل دی جائے گی؟ جیسے انتہائی سنسنی خیز موضوعات سے متعلق ہو اور بات کرنے والا ملک کا ٹاپ سپائے ماسٹر ہو تو پھر سننے والوں کے انہماک اور توجہ کا لیول کیا ہو سکتا ہے ،یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم لاہور کے گیریژن آڈیٹوریم میں ملک کی 12 یونیورسٹیوں کے 350 اسٹوڈنٹس کے سوالات کے جواب دے رہے تھے ، 25 سینیئر اساتذہ کرام بھی تقریب میں شریک تھے۔
آڈیٹوریم میں کبھی تو ایسا سکوت طاری ہو جاتا کہ "پن ڈراپ سائلنس" والی صورتحال بن جاتی اور کبھی تالیاں ایسے پرجوش اور بے ساختہ انداز میں بج اٹھتیں کہ اس کمال کے انٹلیکچوئل انٹر ایکشن کی فضا دوآتشہ ہو جاتی ۔
اس کھلے ڈھلے مکالمے کی انتہائی متاثر کن فکری بلندیوں کو دیکھ کر بطور پاکستانی ہمارا سر فخر سے اونچا ہو گیا کہ اعلیٰ ذہنی و فکری صلاحیتوں کے اعتبار سے ہمارا حال اور مستقبل دونوں محفوظ ہاتھوں میں ہیں ۔
پاکستانی یوتھ کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی کے اس انٹلیکچوئل انٹر ایکشن نے ایک طرف نئی نسل کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے ان گنت سوالات سے روشناس کروایا تو دوسری طرف یہ معاملہ بھی واضح ہو گیا کہ ملک کے حال اور مستقبل کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کیا ہے؟
ریاست کے حوالے سے نئی نسل میں غلط فہمیاں پیدا کرنا ملک دشمن قوتوں کا دیرینہ ایجنڈا ہے اس لیئے ریاست کی طاقت ور شخصیات کے ساتھ پڑھے لکھے نوجوانوں کے ایسے براہ راست مکالمے سے نہ صرف نوجوانوں بلکہ پوری قوم کو ان حقائق کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ جن کے بارے میں کھل کر بات کرنا اب ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر پھیلائی گئی غلط فہمیاں دور کی جا سکیں۔
ریاست ایک طرف اپنے وجود پر ہونے والے کھلے اور پوشیدہ حملوں سے مسلسل نبرد آزما رہتی ہے تو دوسری طرف اپنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کسی توقف کے بغیر مصروف عمل بھی ، ان دو طرفہ مصروفیات کی وجہ سے اہل وطن کے ساتھ ایسی براہ راست بات چیت کے مواقع کم ہی ملتے ہیں ، اب یہ قابل قدر سلسلہ شروع ہوا ہے تو اسے باقاعدہ پالیسی کا حصہ بنا کر جاری رہنا چاہیئے ، ڈائریکٹ انٹر ایکشن کا یہ فیصلہ ایک بیدار قوم کی تعمیر میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا ۔ انشاء اللہ
نوجوانوں نے بلا جھجک 9 مئی ، فوجی عدالتوں میں ٹرائل ، کرپشن ، سوشل میڈیا ، سب نیشنل ازم ، بلوچ دھرنا ، لاپتہ افراد ، آرمی میرٹ ، ایس آئی ایف سی ، اکنامک ایشوز ، کشمیر اور افغانستان سمیت ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر دل کھول کر سوالات پوچھے ، طلباء نے ہر وہ سوال لگی لپٹی رکھے بغیر پوچھ لیا جو آج کے حالات میں اسٹیبلشمنٹ خاص کر ڈی جی آئی ایس آئی سے پوچھا جا سکتا تھا ،یعنی جو آج ہر نوجوان کے ذہن میں ہے کہ اسے موقع ملے تو وہ ضرور پوچھے ، جن طلباء کو موقع مل گیا وہ پوچھنے سے گھبرائے نہیں،یہ بے تکلفی پیدا کرنا بلاشبہ ڈی جی آئی ایس آئی کا کمال تھا کہ انہوں نے اپنے 20 منٹ کے ابتدائی خطاب میں ایسی اپنائیت اور اعتماد کی فضا قائم کر دی تھی کہ نوجوان شرکاء کو حوصلہ ملا ، کل 50 سوالات پوچھے گئے اور اکثر سوالات اتنے زوردار تھے کہ ہال تالیوں سے گونجتا رہا اور جوابات چونکہ سوالات سے بھی زیادہ زوردار بلکہ "پٹاخے دار" تھے ، اس لیئے تالیوں کی گونج اور دورانیہ پہلے سے بڑھ جاتا ۔
یہ فکری نشست تین گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہی لیکن مجال ہے کہ کسی کو تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا معمولی سا بھی احساس ہوا ہو ، موضوعات دلچسپ ، سوال بے ساختہ اور جواب زوردار ہوں تو محفل کا رنگ قابل دید ہوتا ہے ، یوں یہ "میچ" ففٹی ففٹی پر "ڈرا" ہو گیا ،یعنی پچاس بہترین سوالات اور پچاس زوردار جوابات دیئےگئے۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے سیاسی و اقتصادی صورتحال ، اندرونی استحکام ، علاقائی سلامتی ، یوتھ کے پاکستان کی آبادی میں بہترین تناسب ، سمندر پار پاکستانیوں کی اہمیت اور کردار ، امت میں اتحاد خاص طور پر مذہبی رواداری ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، نسلی اور لسانی معاملاتِ پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
9 مئی سے متعلق سوال بھی انتہائی کھل کر پوچھا گیا ، کہا گیا کہ ملٹری کورٹس میں مقدمات کیوں ؟ یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن میں بھی مستقبل نظر نہیں آ رہا ، یہ سب غیر یقینی کیوں ہے ؟
سپائے ماسٹر کا جواب بھی کھلا ڈھلا ، لگی لپٹی رکھے بغیر اور ذہنوں سے ہر ابہام دور کرنے والا تھا کہا " 9 مئی کو ریڈ لائنز کراس کی گئیں ، دنیا میں ہر جگہ ریاستیں ایسا ہی ردعمل دیتی ہیں کہ جب ریڈ لائنز کراس کی جائیں ، امریکہ میں ٹرمپ کی مثال دیکھ لیں،پاکستان میں بھی ریڈ لائن کراس کرنے پر پہلی مرتبہ ایسا ردعمل نہیں دیا گیا،ماضی میں بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کا کہنا تھا کہ 9 مئی پر بھی زیرو ٹالرینس رہی اور آئندہ بھی جو ریڈ لائن کراس کرے گا، اس کے ساتھ زیرو ٹالرینس ہی برتی جائے گی ، کسی بلوائی کو قانون کی گرفت سے بچنے نہیں دیا جائے گا ۔ یہ نہیں ہو سکتا آپ شہداء کی بے حرمتی کریں ، اداروں پر حملہ آور ہوں ، ریاست کی بنیادوں کو کمزور کریں ، دشمن کا ایجنڈا آگے بڑھائیں اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہے، یہ نہیں ہو سکتا ، نہ ہو رہا ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہو گا ، کوئی نرمی اس ایشو پر کبھی برتی جائے گی یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔
معاشی بدحالی سے پریشان نوجوانوں نے اس تناظر میں فوج کی طرف سے مدد کا سوال بھی اٹھایا کہ ریاست کا سب سے ڈسپلنڈ اور طاقتور ادارہ ہونے کے ناطے فوج کو چاہیئے کہ وہ مزید آگے بڑھ کر حکومت کی مدد کرے اور اکانومی کو ریکور کرنے کے لیئے ریاست کے تمام ستون اور ادارے جوائنٹ ایفرٹ کریں ۔
نوجوان نسل کی اس فکر مندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی نے تازہ ترین مثالوں کے ساتھ بھی واضح کیا اور فوج یا اسٹیبلشمنٹ کے ماضی کے کردار پر بھی بات کی، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مستقبل کے حوالے سے بھی فوج کے پختہ عزم و ارادے کی ترجمانی کی اور نوجوان شرکاء کو مطمئن کیا۔
چیف سپائے کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب کبھی مشکل صورتحال پیش آئی فوج نے فرنٹ فٹ پر آ کر معاشی مسائل کا بھی حل نکالا، واپڈا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی مدد کرنا ، فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے میں تعاون ، ملک و قوم کو ریکوڈک اور کارکے جرمانوں سے بچانا اور اب ایس آئی ایف سی وہ روشن مثالیں ہیں کہ کس طرح پاک فوج ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے ساتھ ساتھ معاشی سرحدوں کے تحفظ میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے ۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان نے ڈالر ، کھاد ، چینی ، ایرانی تیل ، گندم ، آٹا کی اسمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کیخلاف جو کریک ڈاؤن کیا وہ بھی ملک و قوم پر جاری معاشی حملوں کے دفاع کا مقدس فریضہ نبھانے کی روشن مثال ہے ۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے یہ بھی واضح کیا کہ جو کام فوج کر سکتی وہ بالکل کر رہی اور کرتی رہے گی ۔ لیکن کچھ پالیسی معاملات ایسے ہیں کہ وہ پولیٹیکل ڈومین میں ہی ہو سکتے ۔ اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیٹیکل لیول پر بھی ذمے داری دکھائی جائے، ہر ذمےداری افواج پاکستان پر ڈال دینے کا رویہ سیاسی لوگوں اور منتخب حکومتوں کو مزید غیرذمے داری کا عادی بنا سکتا ہے ، اس لیئے یہ سوچ بیدار کرنا ضروری ہے کہ اپنی ذمے داریوں سے فرار بھی پولیٹیکل اسٹرکچر کے تقویت نہ پاسکنے کی ایک بڑی وجہ ہے اور یہ صورتحال تبدیل ہونی چاہیئے ۔
سوشل میڈیا پر مخصوص گروہ نے یہ افواہ پھیلا دی کہ تقریب میں وزیراعظم عمران خان کے نعرے بھی لگائے گئے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساڑھے تین سو اسٹوڈنٹس میں سے کسی ایک نے بھی شائستگی سے ہٹ کر کوئی متنازع بات نہیں کی اور نعرے لگانا تو دور کی بات کسی قسم کا بھی غیر شائستہ ماحول نہیں بنا۔
سوال پوچھا گیا کہ الیکشن ہو رہے ہیں یا نہیں ؟
انہوں نے کہا کہ "ابھی بھی شک ہے ! نکال دیں ذہن سے شک ، الیکشن آٹھ فروری کو ہو رہے ہیں !" ، ڈی جی آئی ایس آئی کے اس بے ساختہ "پٹاخے دار" جواب پر آڈیٹوریم تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کا کہنا تھا کہ قیاس آرائیوں اور افواہوں سے ابہام پیدا کیے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ کام ہو گا یا نہیں اور جب وہ بات ہو جاتی ہے تو پھر کسی نئے حوالے سے اک نیا مشکوک بیانیہ گھڑ لیا جاتا ہے تاکہ ابہام پیدا کرنے والوں کے گلشن کا کاروبار چلتا رہے، اسی طرح الیکشن ہونے نہ ہونے کی بات کی جا رہی ہے، لیکن جب یہ ہو جائیں گے تو اس کا بھی ہر کسی کو یقین آ جائے گا، لیکن میں آپ کو پیشگی بتا رہا کہ ذہنوں سے ہر طرح کا شک نکال دیں، الیکشن سو فیصد ہو رہے ہیں۔
مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی نے واضح کیا کہ ہندوستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا فروغ کشمیر کے مسئلہ کے پائیدار حل کے بغیر ممکن نہیں ۔ مغربی سرحد پر لگنے والی باڑ کے بارے میں سوال کے جواب میں ڈی جی ISI نے کہا کہ بارڈر ریگولیشن پاکستان کی خود مختاری اور سیکورٹی کے لئے بہت اہم ہے، غیر قانونی سپیکٹرم بشمول اسمگلنگ جیسے مسائلِ کی وجہ سے بارڈر کراسنگ کو صرف آفیشل گیٹس تک محدود کر دیا گیا ہے۔
مسنگ پرسنز کے حوالے سے سوال کا ڈی جی آئی ایس آئی نے مختلف اعدادوشمار سامنے رکھتے ہوئے مفصل جواب دیا اور بتایا کہ جب یہ معاملہ پہلی مرتبہ ریاست نے ایڈریس کرنا چاہا تو اسے 30 ہزار لاپتہ افراد کی لسٹ دی گئی ، اسکروٹنی ہوئی تو پتہ چلا کہ 23 ہزار نام گھوسٹ تھے ، یوں لاپتہ افراد کی لسٹ سات ہزار افراد پر آ گئی مزید تحقیقات ، شواہد اور حقائق سامنے آئے تو انکشاف ہوا کہ ان 7 ہزار میں سے بہت سے تو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہیں ، پہاڑوں پر چلے گئے ہیں یا ایران اور افغانستان میں ہیں یا اسی تخریب کاری کی دلدل میں دھنس کر مر جگہ چکے ہیں، یوں کم ہوتے ہوتے آخر کار اس لسٹ میں لاپتہ افراد 2350 رہ گئے ان میں سے بھی اصل ایشو جبری گمشدہ افراد کا بنایا جاتا ہے جو چار سو کے قریب ہیں ،انٹیلی جنس اداروں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ان افراد کو انہوں نے جبری گمشدہ کیا ہے،اپنے الزام کی تصدیق کے لیے بتایا جاتا ہے کہ سفید رنگ کی گاڑی آئی تھی، جو اٹھا کر لے گئی ،اب کوئی ذاتی ، سیاسی یا قبائلی دشمنی میں یا کسی اور وجہ سے سفید رنگ کی گاڑی استعمال کرکے لے اپنے کسی مخالفت کو اغواء کر کے لے جائے تو وہ بھی فوج کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ بہرحال ریاست نے اس ایشو پر بہت کام کیا ہے، کمیشن بنایا گیا، عدالتوں میں تفصیلات دی گئیں ، ہمارا موقف یہ ہے کہ "والیوم" جتنا بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے ، اتنا نہیں ہے ، سب سے اہم بات یہ کہ اس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، اور نہ ہی کسی خاص ایجنڈے کے تحت اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیئے یہ کھیل کھیلنا چاہیئے ، جو لوگ جینوئن لاپتہ ہیں ، چاہے وہ کسی بھی وجہ سے لاپتہ کیئے گئے یہ انسانی مسئلہ ہے اور اسے اسی جذبے کے تحت ہائی لائٹ کرنے اور حل کرنے کیلئے سب کو مل جل کر کوشش کرنی چاہیئے۔
اس تاریخی مکالمے میں لاہور / پنجاب کی جن 12 ٹاپ کی یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز نے شرکت کی ان میں پنجاب یونیورسٹی ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی آف لاہور ، یو ای ٹی ، لمس ، یو ایم ٹی اور یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
یوتھ کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی کی ایسی نشست ایک بہترین فیصلہ اور جاری رہنے والا اقدام ہے۔ جس میں نوجوانوں کو ہر وہ سوال کرنے کا موقع ملے جس سے متعلق ان کے ذہنوں کوپراگندہ کیا گیا ہو کہ ایسے سوالوں کا اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی جواب نہیں۔جب اس نشست کا مقصد ہی ابہام، غلط فہمیوں کا خاتمہ، دوریاں مٹانا ہو تو یہ مقصد ہر سوال پوچھے جانے اور جواب دیے جانے سے ہی حاصل ہو سکتا۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے یہ مقصد حاصل کرنے کی جانب کامیاب سفر شروع کیا ہے جسے ہر سطح پر سراہا جانا چاہیے،جن ذہنوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہا وہ آج بھی اسی فرسودہ فکری نظریے پر کھڑے ہیں کہ "دیکھو وہاں نعرے لگ گئے، نام لے لیا گیا"،حقیقت یہ ہے کہ یہ نشست یوتھ کو شخصی غلامی سے نکالنے کا نقطہ آغاز ہے جس پر شخصیت پرست گروہ کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔