ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بائیڈن نے قاتلوں کو معاف کیا، ٹرمپ موت کی سزائیں دینے پر بضد

Donald Trump, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ، امریکہ کی سیاست میں نمایاں جگہ ملنے کے لئے "لبرل" ہونا بنیادی وصف سمجھا جاتا رہا ہے، انتہا پسندی کا رجحان رکھنے والے کم ہی امریکہ میں مین سٹریم سیاست میں زیادہ نمایاں ہو پاتے ہیں لیکن ٹرمپ کا معاملہ مختلف ہے، وہ ذاتی زندگی میں کچھ بھی رہے ہوں، سیاست میں ان کا پوسچر "انتہا پسند" وائٹ سپرمیسسٹ، تنگ نظر اور  تشدد  کی طرف مائل شخص کا سا ہے اور وہ اس پوسچر کو دراصل خود بناتے اور مزید ابھارتے ہیں۔صدر  بائیڈن نے قاتلوں کو معاف کیا، ٹرمپ قاتلوں اور ریپسٹوں کو موت کی سزائیں دینے پر بضد ہیں حالانکہ وہ خود  بائیبل سٹیٹس تصور کئے جانے والے زیادہ مذہب پرست امریکی ووٹرز کے علاقوں سے مینڈیٹ لے کر وائٹ ہاؤس تک پہنچ رہے ہیں اور  بظاہر خود کو  اس مذہب کا زیادہ سرگرم حامی بنا کر پیش کرتے ہیں جو سزا دینے پر معاف کر دینے کو مقدم قرار دیتا ہے۔

 امریکہ کے چار سال سے صدر ڈیموکریٹ سیاستدان جو بائیڈن نے زندگی کے غالباً آخری سٹیٹس مین شپ ٹاسک کے آخری چند ہفتوں کے دوران اہم ترین فیصلہ یہ کیا کہ سزائے موت کے منتظر 37 قیدیوں کو سزائے موت ملنے سے بچا کر نئی زندگی دے دی اور ان کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔

اس کے بالکل برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا ہے، انہوں نے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے لئے تین ہفتے کا انتظار بھی نہیں کیا اور آج ہی یہ توپ کے گولے جیسا بیان داغ دیا کہ وہ تو ہر قیمت پر  موت کی سزائیں دیا کریں گے۔  ٹرمپ نے بظاہر تو یہ کہا ہے کہ  وہ  قتل اور جنسی زیادتی میں ملوث مجرموں کیلئے سزائے موت کا نفاذ  کرین گے لیکن ٹرمپ کے عمومی  رویہ کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے وہ نیویارک کی ڈسٹرکٹ اٹارنی سے لے کر بہت سے صحافیوں تک درجنوں ناقدوں کو قتل یا ریپ جیسے جرم میں ملوث ہوئے بغیر بھی موت کی سزا دینا چاہتے ہوں گے۔ 
 

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قتل، جنسی زیادتی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث مجرمان کے لیے سزائے موت کے نفاذ کا اعلان کرنے کے لئے اپنے دوست اور سرگرم سپورٹر ایلون مسک کے پلیٹ فارم ایکس کی بجائے اپنے کاروباری پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنے اکاؤنٹ سے  ایک پوسٹ لکھی جس میں انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ  جسٹس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت دیں گے کہ امریکی شہریوں کو قاتلوں، جنسی زیادتی کے مجرموں اور دیگر سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ان مجرموں کو موت کی سزا دلوائے۔

ٹرمپ کا یہ بیان موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے 37 قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں  تبدیل کرنے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔

 جو بائیڈن نے 37 قیدیوں کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کی تو اس کے پیچھے ان کی ذاتی خواہش اور کسی مجرم کے ساتھ ہمدردی کا عبصر کہیں نہیں تھا بلکہ یہ فیصلہ دراصل سزائے موت کے خاتمہ کی گلوبل تحریک کے زیر اثر امریکی صدر کے حصہ میں آنے  والا اہم کام ہے جسے جو بائیڈن نے کافی تاخیر سے انجام دیا لیکن بہرحال انہوں نے اپنی صدارت کے دوران فیڈرل دائرہ اختیار میں کسی مجرم کو پھانسی پر جھولنے بھی نہیں دیا۔۔
 
گزشتہ روز صدر بائیڈن نے سزائے موت کے 40 قیدیوں میں سے صرف تین کی سزائین کم نہیں کیں جو زیادہ سنگین نوعیت کے اور زیادہ ہمہ گیر اثرات کے حامل قتل عام نما جرائم میں ملوث تھے۔

جو بائیڈن کے اس اقدام کی دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور زندہ رہنے کے حق کو تمام حقوق پر مقدم جاننے والے باشعور انسانوں نے تو یقینا! سراہا ہو گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے آج  کہا کہ "جوبائیڈن نے 37 بدترین مجرموں کی سزا میں کمی کی ہے۔" اور یہ کہ ان قیدیوں کے جرائم سن کر یقین نہیں آتا کہ جوبائیڈن نے ایسا کیوں کیا، اس طرح  متاثرین کے رشتہ داروں کو مزید صدمہ پہنچے گا۔

دل چسپ امر یہ ہے کہ جن 37 مجرموں کی سزا صڈر بائیڈن نے کم کی ہے، ان تمام کے وکٹمز مین سے اب تک کسی نے یہ شکایت نہین کی کہ کیوں سزا کم کر کے عمر قید میں بدل دی۔