پاکستان میں نو مئی 2023 کو ریاست کی سلامتی پر سنگین نوعیت کے حملے کرنے میں ملوث 25 مجرموں کو سزائیں ہو جانے پر امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو کافی زیادہ تشویش لاحق ہو گئی۔
واشنگٹن میں امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے 9 مئی کو پاکستان کی ریاستی تنصیبات سے لے کر بانیِ قوم کے تاریخی نوادرات اور شہید ہیروز کی یادگاروں تک پر نفرت بھرے حملے کرنے میں ملوث مجرموں کو سزائیں دیئے جانے کے عمل پر اس بنا پر سخت تشویش ظاہر کی ہے کہ ان مجرموں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے۔
واشنگٹن مین سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے 9 مئی 2023 کو بلا اشتعال ریاست کے اداروں، شہیدوں کی یادگاروں اور بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی نشانی سمجھے جانے والے نوادرات پر حملے کرنے، انہیں تباہ و برباد کرنے اور ریاست کے خلاف بغاوت برپا کرنے کی کوشش کرنے والے ممجرموں میں سے 25 کو سزائیں سنا دیئے جانے کے عمل پر "گہری تشویش "کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "واشنگٹن کو 9 مئی کے مظاہروں میں ملوث شہریوں کے خلاف فوجی ٹریبونلز کی جانب سے سزاؤں کی سنائی جانے والی کارروائی پر تحفظات ہیں۔"
میتھیو ملر نے امریکہ کی ریاست کا مؤقف دہرایا کہ فوجی عدالتوں میں عدالتی آزادی، شفافیت اور فئیر ٹرائل کی ضمانتوں کا فقدان ہے، پاکستانی حکام آئین میں درج منصفانہ ٹرائل کا احترام کریں۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے امریکی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر امریکی ریاست کے مبینہ دشمنوں کو سزائیں دینے کے لئے گوانتا نامو کے جزیرہ پر امریکہ کی ریاست سے بالاتر ریاست قائم کر دی تھی اور وہاں دنیا بھر سے لائے گئے سینکڑوں افراد کو سال ہا سال تک حتیٰ کہ کوئی فوجی عدالت بٹھائے بغیر ہی قید رکھا گیا اور دنیا کےلئے عبرت کا نشان بنا دیا گیا تھا۔
ان میں سے بیشتر لوگوں کو امریکہ کی ریاست کے مفادات کے خلاف جنگ میں کسی نہ کسی حیثیت سے شریک ہونے کے شبہ میں دنیا کے مختلف حصوں سے اٹھوا کر گوانتا نامو کے جزیرہ پر پہنچایا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر پر "امریکہ کا دشمن" ہونے کے سوا کوئی جرم ثابت نہیں ہو پا رہا تھا، امریکی انہیں اپنی کسی عدالت میں لا کر انہیں کوئی سزا دینا چاہتے تو کامیاب نہ ہو پاتے۔
ان قیدیوں پر امریکہ کی عدالتوں کی بظاہر عملدراری سے باہر علاقہ میں رکھ کر تشدد کے نئے غیر انسانی طریقے آزمائے گئے اور انہیں سالوں تک غیر انسانی حالات میں رکھا گیا۔ گوانتا نامو کے تاریک چیپٹر پر اب تک امریکہ نے نہ تو معتوبین سے معافی مانگی نہ کسی کے ساتھ کئے گئے غیر انسانی سلوک کی تلافی کرنے کی کوئی کوشش کی۔
امریکہ کے برعکس پاکستان کی کمزور ریاست نے طاقتور غیر ملکی عناصر کی کھلم کھلا سرپرستی کے ساتھ 9 مئی 2023 کو منظم کی گئی "کو دیتا کی کوشش" میں مصروف شر پسندوں اور تخریب کاروں کو رنگے ہاتھوں پکڑا، ویڈیو ریکارڈنگ جیسے ثبوتوں کے ساتھ اور گواہوں کے ساتھ مقدمات چلائے، ایک سال سے زیادہ عرصہ تفتیش اور ٹرائلز کی تکمیل میں لگایا اور 25 پرائم مجرموں کو سزائیں سنا دیں۔ انہیں سزائین دو سال سے دس سال قید کی سنائی گئیں۔ ان سزاؤں پر اپیل کرنے کے لئے پاکستان کا عدالتی نطام موجود ہے لیکن واشنگٹن میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ان مجرموں کا مربی بننے کی بے فائدہ سعی کر کے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ بھی موجود ہے۔
امریکہ تنہا ہی نہیں، یورپی یونین، یورپی یونین سے الگ ہو جانے والا برطانیہ بھی فوجی عدالتوں میں مجرموں کو سزائیں سنائے جانے پر پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں۔
برطانوی دفتر خارجہ نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے البتہ یہ دہرانا مناسب سمجھا کہ برطانیہ پاکستان کے قانونی عمل میں دخل اندازی نہیں کرتا، برطانیہ اپنی قانونی کارروائیوں پر پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔ برطانیہ کو تشویش اس بات پر ہے کہ فوجی عدالتوں میں ہونے والے ٹرائل میں شفافیت، آزادانہ جانچ پڑتال کا فقدان ہو سکتا ہے۔
ایک طرف نام نہاد "شفافیت" اور "فئیر ٹرائل" کے فقدان کے خدشات دہرائے گئے تو دوسری طرف سے کیا کِیا گیا؛ پچیس مجرموں کے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے ویڈیو کلپس، ان گھٹیا حملوں کی تفصیلات، اب تک ہونے والی تحقیقات کے ساتھ ڈاکیومنٹری کی شکل میں ریلیز کر دی گئیں۔ اب نہ صرف امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے بزرجمہر وں کے "اظہارِ تشویش" سے تشویش میں مبتلا ہونے والے کنسرنڈ سیٹیزن بلکہ باقی ماندہ دنیا کے اب اور آئندہ کبھی بھی 9 مئی 2023 کے پاکستانی ریاست پر منظم حملوں کی ریسرچ میں دل چسپی رکھنے والے محقق ان ڈاکیومنٹریز کو دیکھ کر خود نتائج اخذ کر سکیں گے۔
"فوجی عدالت" انصاف کی ڈسپینسیشن کے لئے آئیڈیل فورم نہیں، پاکستان کے آئین کے مطابق سویلین عدالتیں فوجداری مقدمات سے لے کر سنگین غداری تک کے مقدمات کو سننے کے لئے دستیاب ہیں لیکن مربیوں کے پیدا کئے ہوئے تہہ در تہہ سازشوں کے ماحول میں کرنل شیر خان کا مجسمہ توڑ کر پچیس کروڑ کی قوم کا خود پر یقین توڑ دینے کی سازش میں شریک مجرموں کو محض چند سال- گوانتا نامو سے کہیں زیادہ با سہولت- قید کی سزا دینا، پچیس کروڑ کا خود پر اور ریاست کے تمام چھوٹے بڑے کرنل شیر خانوں کا ریاست پر یقین بحال رکھنا ہر تنقید سے زیادہ ضروری امر تھا۔
کرگل کے برفزار میں دشمن فوج کے افسروں سے اپنی پیشہ ورانہ عظمت کی گواہیاں لینے والےکرنل شیر خان شہید کے مجسمے کا سر تن سے جدا کر دینے جیسا جرم یورپ، امریکہ کے کسی بھی کونے میں ویڈیو میں ریکارڈ ہو کر دوسرے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ سامنے آ جاتا تو کوئی بھی عدالت ہوتی، سزا ضرور سناتی اور یقیناً اب سے کئی ماہ پہلے سنا چکی ہوتی۔