ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایٹمی پروگرام چوبیس کروڑ عوام کا ہے، کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، شہباز شریف

ایٹمی پروگرام چوبیس کروڑ عوام کا ہے، کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، شہباز شریف
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر پابندیاں لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا دفاعی نظام صرف اور صرف قومی سلامتی کے لیے ہے، اس کا مقصد جارحیت نہیں بلکہ صرف ڈیٹرنس ہے۔

منگل کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 'پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس کے 24 کروڑ شہریوں کی ملکیت ہے اور ہم اس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے'۔

 کابینہ کے اجلاس میں قومی چیلنجز، معاشی خدشات اور پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سمیت مختلف اہم امور پر توجہ مرکوز کی گئی۔

 20 دسمبر کو  امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام سے متعلق نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ یہ پابندیاں پہلی بار پاکستان کی ریاستی دفاعی ایجنسی پر لگائی گئیں، جو میزائل پروگرام کی نگرانی کرتی ہے۔ ان پابندیوں کا مقصد پاکستان کی اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو روکنا اور اس کی بڑھتی ہوئی میزائل صلاحیتوں پر خدشات کو دور کرنا ہے۔

ملک کے این ڈی سی اور دیگر اداروں پر امریکی پابندیوں پر آتے ہوئے، وزیر اعظم شہباز شریف نے اس اقدام کو غیر منطقی قرار دیا کیونکہ پاکستان کا جوہری نظام کسی جارحیت کے لیے نہیں بلکہ صرف ڈیٹرنس کے لیے تھا۔

شہباز شریف نے کابینہ کے ارکان کو بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا، ایک حالیہ حملے میں دہشت گردوں نے 17 سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا اور سیکیورٹی فورسز نے 8 خوارج کو بھی ختم کردیا۔

شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو بتایا کہ 'نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس اور دیگر فرموں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، اس کا کوئی جواز نہیں ہے'، انہوں نے مزید کہا کہ 'پاکستان کا  اپنے جوہری پروگرام کو جارحانہ پروگرام میں بدلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔  پاکستان کا جوہری پروگرام 100 فیصد  دفاعی نوعیت کا ہے اور یہ صرف ڈیٹرنس ہے، اور کچھ نہیں۔"

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام ان کا یا وفاقی کابینہ کے ارکان کا نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کے 240 ملین عوام کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور پوری قوم اس پر پوری طرح متحد ہے۔

امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے 18 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق بشمول اس پروگرام کی نگرانی کرنے والی سرکاری دفاعی ایجنسی پرمزید  پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ یہ  پابندیاں ہدف بنائے گئے اداروں کی کسی بھی طرح کی امریکی املاک کو منجمد کرتی ہیں اور امریکیوں کو ان اداروں کے ساتھ کاروبار کرنے سے روکتی ہیں۔

سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدامات نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) اور تین فرموں پر ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت عائد کیے گئے ہیں جس میں "بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو نشانہ بنایا گیا ہے۔"

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسی دن اس اعلان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو "دوہرے معیارات اور امتیازی طرز عمل" کے طور پر بیان کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اس سے علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرہ ہے۔

کابینہ کے اجلاس مین وزیراعظم نے دہشت گردی کو کچلنے کا عزم کیا۔

کابینہ کے ارکان نے شہید ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی روح کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ جب تک مقصد کے حصول تک خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے آٹھ خوارج کو جنہم واصل کیا، سپہ سالار خود وہاں گئے اور لواحقین کا حوصلہ بڑھایا، دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیے بغیر معاشی استحکام کے ثمرات حاصل نہیں ہوسکتے، دہشت گردی کا بھرپور مقابلہ کیاجارہاہے، ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے،انہوں نے کہا کہ کاش اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والے پاراچنار کے حالات پر توجہ دیتے۔ کے پی میں فرقہ وارانہ تصادم کے بارے میں، وزیر اعظم نے صوبائی حکومت کو اس مسئلے پر توجہ دینے کے بجائے اسلام آباد پر مارچ کرنے کے لیے وسائل استعمال کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

وزیر اعظم کو حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کے مثبت نتائج کی امید

وفاقی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے حکومت کی مخلصانہ کوششوں اور تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ حکمران اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات سے ملک میں امن اور معاشی استحکام کے فروغ کے لیے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کے اقدام پر پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا پہلا دور پیر کو ہوا جبکہ دوسرا 2 جنوری 2025 کو شیڈول ہے۔ صدیقی، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عبدالعلیم خان، اعجاز الحق اور خالد مگسی۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوگا جب دونوں جماعتیں قومی مفادات کی خاطر اپنی پسند اور ناپسند کو ایک طرف رکھیں۔ "مجھے کسی کی نیت پر شک نہیں ہے۔ انہوں نے پالیسی ریٹ کو 13 فیصد، افراط زر 5 فیصد سے نیچے، برآمدات اور ترسیلات زر میں مسلسل اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا، "مجھے امید ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومتی پارٹی دونوں ملک کے فائدے کے لیے نتائج لائیں گے اور معاشی استحکام کو فروغ دیں گے."


پاکستان بنگلہ دیش تعلقات میں گرمجوشی

قاہرہ میں D-8 سربراہی اجلاس کے موقع پر بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر یونس اور انڈونیشیا اور ترکی کے صدور کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے،  شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں کیونکہ مؤخر الذکر نے پہلے ہی پاکستانی ایکسپورٹس کے لئے  100 فیصد سکیننگ ختم کر دی تھی۔ پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے  ہوائی اڈوں پر خصوصی ڈیسک بنا دیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی بنگلہ دیش کو  مثبت کے ساتھ جواب دے رہا ہے اور نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار فروری میں ڈھاکہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ لیکن یہ تمام کوششیں تبھی رنگ لائیں گی اگر ہم قومی اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیں گے۔

پی ٹی آئی کے ساتھ ڈائیلاگ کے آغاز کے حوالے سے کابینہ کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا،  یہ سپیکر قومی اسمبلی کا اچھا اقدام ہے۔ ہم خلوص نیت سے اپنا حصہ ڈالیں گے۔ لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ دونوں جماعتیں قومی مفادات کی خدمت اور قومی استحکام کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی۔

 وزیراعظم نے کہا، ہمیں ذاتی پسند کے بجائے قومی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے، ایسے اقدامات سے ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں رہے گا، امید ہے حکومتی اور پی ٹی آئی کمیٹیوں کی ملاقات مفید رہے گی،انہوں نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں مزید دو فیصد کمی کی گئی ہے، مہنگائی کی شرح میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہورہا ہے۔