لوئر مال (علی رامے) نئی مردم شماری سے ہوگا پنجاب کو سیاسی اور مالی نقصان متوقع، آبادی میں اضافہ اور گروتھ ریٹ میں کمی سے پنجاب حکومت کو57ارب روپے کے مالیاتی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پنجاب حکومت کے جانب سے بھجوائی گئی رپورٹ میں نئی مردم شماری کے خدشات سامنے آگئے، مردم شماری کے حوالے سے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں پنجاب حکومت کی آبادی کنٹرول کرنے کی بہتر حکمت عملی ہی اس کے گلے پڑ گئی ہے، جس سے اب این ایف سی سے حصے میں مزید کٹوتی ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق نئی مردم شماری سے پنجاب کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد میں بھی کمی آئے گی اور نئی مردم شماری سے پنجاب کو قومی مالیاتی کمیشن سے ملنا والا حصہ بھی کم ہو جائے گا، دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی آبادی کم کرنے سے متعلق جامع منصوبہ بندی کرنے کا حکم دیا جائے، پنجاب حکومت کی سفارشات کے مطابق 2017 کی مردم شماری سے ایف ایف سی سے پنجاب کا حصہ 51 فیصد سے کم ہو کر 49 فیصد رہ گیا تھا۔
واضح رہے کہ 13 اپریل کو وفاقی حکومت کی جانب سے جلد نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا، مشترکہ مفادات کونسل اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا تھا کہ مردم شماری کے حوالے سے کابینہ کی کمیٹی بھی بنا دی گئی اور انہوں نے اس حوالے سے اپنی سفارشات بھی مرتب کیں، مردم شماری الیکشن کی بنیاد بنتی ہے اور تازہ ترین حلقہ بندیوں کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں اور اسی کی بنیاد پر الیکشن کرائے جاتے ہیں جبکہ 2018 کے الیکشن کو خاص آئینی ترمیم کے ذریعے خصوصی استثنیٰ دیا گیا تھا۔
اسد عمر نے کہا کہ ضمنی انتخابات پرانی حلقہ بندیوں اور مردم شماری سے ہو سکتے ہیں لیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے اور اس میں عدلیہ کی بھی بہت زیادہ دلچسپی ہے۔