جسٹس منصور علی شاہ کا خط میڈیا میں آ گیا، نیا تنازعہ سامنے آ گیا

23 Sep, 2024 | 08:24 PM

سٹی42:  پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس نافذ ہونے کے بعد آج سپریم کورٹ میں نئے ہفتے کے پہلے روز  نئی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا  اجلاس ہو تو گیا لیکن اس مین جسٹس منصور عل شاہ شریک نہیں ہوئے اور ان کی بجائے ان کا خط  آ گیا۔ اس خط سے سپریم کورٹ میں پہلے سے جاری تنازعات کے ساتھ بادی النظر میں ایک اور  تنازعہ بھی  کھڑا ہو گیا ہے۔

پیر کی شام میڈیا تک پہنچنے والے اس مبینہ خط میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج  جسٹس منصورعلی شاہ نے سیکرٹری سپریم کورٹ کمیٹی کو مخاطب کر کے ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ آرڈیننس اجرا کے چند ہی گھنٹوں بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کردی گئی، ترمیمی آرڈیننس آنے کے بعد بھی سینیئرترین ججز کو کمیٹی اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں لکھا  کہ کوئی وجہ بتائے بغیر جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹادیا گیا۔  اپنی مرضی کا ممبرکمیٹی میں شامل کرکے من مرضی کی گئی جو غیرجمہوری رویہ اور ون مین شو ہے۔

 چیف جسٹس کی ذات میں انتظامی معاملات کا ارتکاز غیر جمہوری اور عدالتی شفافیت کےاصول کے برعکس ہے۔ 
جسٹس منصورعلی شاہ جو بائی ورچو آگ لا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا حصہ ہیں، اب انہیں نے اپنے مبینہ خط میں اس کمیٹی میں واپسی کی "شرائط "رکھ دیں اور  کہا کہ جب تک فل کورٹ اس آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ نہیں لیتی، میں کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا یا جب تک فل کورٹ آرڈیننس کے ذریعے ترامیم پر عملدرآمد کا فیصلہ نہیں کرتی، میں کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا یا پھر جب تک چیف جسٹس سابقہ کمیٹی بحال کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کو شامل نہیں کرتے کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔

جسٹس منصور علی شاہ کی تجاویز میں تضاد

جسٹس منصور علی شاہ جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سینئیر موسٹ جج ہنے کی حیثیت سے صدر مملکت کے جاری کردہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا حصہ ہیں انہوں نے خط میں ایک طرف تو مطالبہ کیا کہ صدارتی آرڈیننس پرسپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ بنایا جائے یا انتظامی سائیڈ پرفل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔ دوسری طرف انہوں نے فل بنچ بنانے یا فل کورٹ اجلاس کر کے آڑڈیننس پر سپریم کورٹ کی پوزیشن طے کرنے سے پہلے ہی جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں واپس بٹھانے یعنی جسٹس امین الدین خان کی رکنیت ختم کرنے یعنی چیف جسٹس آٖ پاکستان کا آرڈیننس مین تفویض کردہ ایک جج کو کمیٹی کا رکن نامزد کرنے کا اختیار سرنڈر کرنے کا مطالبہ بھی اپنے خط مین لکھ دیا۔ 

خیال رہے کہ آج سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے تحت ججز کمیٹی کا جو اجلاس ہوا، اس میں جسٹس منصور علی شاہ شرکت کیے بغیرچلے گئے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نامزد کردہ جج امین الدین خان چیف جسٹس کے ساتھ اجلاس میں موجود تھے۔

مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کا اختیار اور چیف  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 

مقدمات کو سننے کے لئے مقرر کرنے کا اختیار رکھنے والی یہ خاص کمیٹی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے چیف جسٹس کے اختیار کو سرنڈر کرتے ہوئے خود تشکیل دی تھی۔ ان کے چیف جسٹس بننے سے پہلے تمام چیف جسٹس مقدمات سننے کے لئے بنچوں کی تشکیل اور مقدمات سماعت کے لئے مقرر کرنے کے اختیار کو ڈسکریشنری اختیار کی طرح استعمال کرتے تھے۔  چی جے عیسیٰ نے از خود یہ طے کیا کہ وہ خود اکیلے نہین  بلکہ دو دوسرے ججوں کے ساتھ مل کر مقدمات سننے کے متعلق فیصلے کیا کرین گے۔ اب صدارتی آڑڈیننس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر  کمیٹی مین چیف جسٹس اور سینئیر موسٹ جج کے ساتھ تیسرا رکن نامزد کرنے کا اختیار چیف جسٹس کو تفویض کر دیا ہے تو انہوں نے  کمیٹی کا تیسرا رکن جسٹس امین الدین خان کو مقرر کر دیا ہے۔

مزیدخبریں