ترکی کے وزیر داخلہ نے انقرہ کے باہر قومی ایرو اسپیس کمپنی توساس کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے دھماکے اور فائرنگ کو "دہشت گردانہ حملہ" قرار دیا ہے۔ اس حملے میں چار افراد ہلاک اور 14 دیگر زخمی ہوئے تھے۔ بعد ازاں خبروں میں بتایا گیا کہ حملہ آوروں نے اس عمارت میں کچھ لوگوں کو یرغمال بھی بنایا۔ ترک وزیرداخلہ نے نے کہا کہ دو حملہ آوروں - ایک عورت اور ایک مرد - کو "نیوٹرل" کر دیا گیا ہے اور ان کی شناخت کا تعین کرنے کے لیے کام جاری ہے۔ یرلیکایا نے یہ نہیں بتایا کہ آیا کوئی اور حملہ آور اب بھی فرار ہے۔
یہ بڑا حملہ بدھ 23 اکتوبر کی شام 4 بجے عمارت کے باہر ہوا، اور ایسی اطلاعات ہیں کہ اس عمارت میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا: “ہمارے چار شہید ہوئے ہیں، 14 زخمی ہیں۔ میں اس گھناؤنے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتا ہوں اور اپنے شہداء کے درجات کی بلندی کی دعا کر رہا ہوں۔
وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا: "انقرہ کے کہرامانکازان میں توساس تنصیبات پر ایک دہشت گرد حملہ کیا گیا۔ بدقسمتی سے ہمارے لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔
لائیور رپورٹنگ کا بلیک آؤٹ
میڈیا آؤٹ لیٹس جو جائے وقوعہ سے لائیو فوٹیج دکھا رہے تھے، ترکی کے میڈیا واچ ڈاگ کی جانب سے سائٹ سے تصاویر کو بلیک آؤٹ کرنے کا حکم دینے کے بعد اپنی نشریات بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔ Haberturk TV نے مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ اس سے قبل "یرغمالی کی صورتحال" جاری تھی۔
دھماکے اور اس کے بعد ہونے والی شوٹنگ کے صحیح حالات ابھی تک واضح نہیں ہیں، کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا۔
یہ واضح نہیں ہوسکا کہ حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ کرد عسکریت پسند، اسلامک اسٹیٹ اور بائیں بازو کے کارکن ماضی میں ترکی میں حملے کر چکے ہیں۔ اسلامک سٹیٹ کی جانب سے آخری حملہ اس سال جنوری میں کیا گیا تھا جو ایک مسیحی عبادتگاہ پر حملہ تھا۔ ترکی میں کرد اقلیت بھی گزشتہ کچھ سال مین شدید نوعیت کے ریاستی جبر اور فوجی کارروائی کا نشانہ بنی رہی ہے، ان کی جانب سے ماضی میں بھی ترک مین لیڈ کے اندر حملے کئے جا چکے ہیں۔ اس حملے کے بعد اب تک کسی گروپ کی جانب سے کوئی ذمہ داری کلیم نہیں کی گئی نہ ہی ترک تفتیش کاروں نے اب تک کسی دہشتگرد گروپ کے ملوث ہونے کا کوئ یشبہ ظاہر کیا ہے۔ تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ حملہ دہشتگردوں کی کارروائی ہے۔
صدر اردوان حملے کے وقت ملک سے باہر ہیں
ترکی کے دارالحکومت انقرہ مین ہونے والے اس حملے کے وقت صدر ایردوان برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ سمیت بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کےممالک کی "برکس سربراہی سمِٹ" کے لیے روس کے شہر کازان میں تھے، جہاں انھوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بات چیت کی۔
حملہ آور کتنے تھے، کیسے آئے
ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ کئی مسلح افراد نے کیا جو ٹیکسی کے ذریعے جائے وقوعہ پر پہنچے۔ مقامی ٹیلی ویژن فوٹیج میں عمارت کے قریب سڑکوں پر سیاہ لباس پہنے اور رک سیک اٹھائے ہوئے افراد کو دیکھا جا سکتا ہے جو عمارت کے باہر لوگوں پر فائرنگ کر رہے ہیں۔ ٹی وی کی تصاویر میں ایک تباہ شدہ گیٹ دکھایا گیا اور کار پارک میں تصادم بھی دکھایا گیا ہے۔
حملہ آور داخلی دروازے پر دھماکہ کرنے کے بعد عمارت کے اندر داخل ہو گئے
ٹی وی چینل این ٹی وی نے کہا کہ حملہ آوروں کا ایک گروپ سیکیورٹی اہلکاروں کی تبدیلی کے دوران ٹیکسی کے اندر کمپلیکس کے داخلے کے دروازے پر پہنچا۔ ٹی وی ن ے بتایا کہ حملہ آوروں میں سے کم از کم ایک نے بم دھماکہ کیا، جبکہ دیگر حملہ آور کمپلیکس میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
نشانہ بننے والی ڈیفینس پروڈکشن کمپنی کی اہمیت
Tusaş ترکی کی سب سے اہم دفاعی اور ہوا بازی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ یہ دیگر منصوبوں کے ساتھ ملک کا پہلا قومی جنگی طیارہ کان Kaan تیار کرتی ہے۔
ترک اخبار Hürriyet کے مطابق عمارت میں موجود عملے کو حفاظت کے پیش نظر پناہ گاہوں میں بھیج دیا گیا تھا۔
حملے کا وقت
یہ حملہ عین اس وقت ہوا جب استنبول میں دفاعی اور ایرو اسپیس کی صنعتوں کے لیے ایک اہم تجارتی میلہ ہو رہا تھا جس کا دورہ اس ہفتے یوکرین کے اعلیٰ سفارت کار نے کیا تھا۔
ترکی کا دفاعی شعبہ، جو اپنے Bayraktar ڈرونز کے لیے جانا جاتا ہے، ملک کی برآمدی آمدنی کا تقریباً 80% حصہ بناتا ہے، جس کی آمدنی 2023 میں $10.2bn سے تجاوز کر جائے گی۔
اس حملے کی وزیر ٹرانسپورٹ عبدالقادر یورالو اوغلو اور اپوزیشن لیڈر ازگر اوزیل کی طرف سے مذمت کی گئی جو CHP کے سربراہ ہیں۔ "میں Kahramankazan میں TAI کی تنصیبات کے خلاف دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتا ہوں … میں دہشت گردی کی مذمت کرتا ہوں، چاہے وہ کوئی بھی ہو یا کہاں سے آیا ہو،" اوزیل نے X پر لکھا۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے کہا کہ نیٹو فوجی اتحاد اپنے اتحادی ترکی کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ مارک روٹےنے پوسٹ کیا، NATO اپنے اتحادی ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم دہشت گردی کی تمام شکلوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور پیشرفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ترکی میں "دہشتگردی" کا آخری حملہ جنوری میں ہوا تھا جب دو مسلح افراد نے استنبول میں ایک کیتھولک چرچ کے اندر فائرنگ کر کے ایک شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔ اسلامک اسٹیٹ نے ذمہ داری قبول کر لی تھی۔