امانت گشکوری: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیتے ہوئے ٹرائل کیخلاف درخواستیں منظور کر لیں ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کچھ دیر پہلے محفوظ کیا گیا مختصر فیصلہ سنایا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ڈی ون غیر آئینی ہے،سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواستیں منظور کر لیں ،فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف متفقہ فیصلہ دیا گیا،زیر حراست 102 افراد کا ٹرائل فوجداری عدالتوں میں ہوگا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کچھ دیر میں مشروط فیصلہ سنانے کا کہا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ہم ابھی اگر واپس آئے تو مختصر فیصلہ جاری کر دیں گے،اگر واپس نہ آئے تو مختصر فیصلے کی تاریخ دیں گے، دوسری جانب 9 متفرق درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی گئیں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالتیں نہیں ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فوجی عدالتیں یعنی کورٹ مارشلز آرٹیکل 175 کے تحت نہیں لیکن آئین و قانون کے تحت قائم عدالتیں ہیں، ، جسٹس یحیٰ آفریدی نے سوال اُٹھایا کہ عدالت اور کورٹس مارشل میں کیا فرق ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کورٹس مارشل آرمی ایکٹ کے تحت قائم فوجی عدالت ہے، کورٹس مارشل آرٹیکل 175 کے تحت نہیں لیکن ہائیکورٹ کے ماتحت ہے، ملٹری کورٹس کا فیصلہ ہائیکورٹ میں آئینی درخواست کے ذریعے چیلنج ہو سکتا ہے.
جسٹس یحیی آفریدی نے پھر سے پوچھا کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کا کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم میں قانونی عمل کا تحفظ کیا گیا تھا۔
دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق اسی صورت ہوتا ہے جب جرم فوج سے متعلقہ ہو، آفیشل سیکریٹ ایکٹ تو وزیراعظم ہاوس اور دفتر خارجہ پر حملے پر بھی لگ سکتا.
آرٹیکل 175 کی بنیاد پر کورٹ مارشل کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، عدالت نے فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کی درخواستیں خارج کر دیں ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فوجی تحویل میں افراد کی درخواستوں کے ساتھ بیان حلفی نہیں ہے۔