ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جعفر ایکسپریس کے ہائی جیکروں کو مسنگ پرسن بنانے کی کوشش میں تین لاشیں گرانے والی  والی مہرنگ بلوچ گرفتار

Mahrang Balc=och, Baloch Yakjehti Committee, Saryab Road Dharna, Jafar Express Hijacking, 3 MPO, City42
کیپشن: مہرنگ بلوچ کو بظاہر پر امن احتجاج کرنے  والی خاتون کی حیثیت سے پورٹرے کیا جاتا ہے لیکن  پاکستانی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ بی ایل اے کے دہشتگردوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اب  کوئٹہ میں  جعفر ایکسپریس ہائی جیک کرنے والے دہشتگردوں کی لاشوں کو انتظامیہ سے چھیننے کی کوشش اور فساد برپا کرنے کے دوران مہرنگ بلوچ نے تین لاشیں گروا دیں۔ کوئٹہ پولیس نے سر دست اسے تین ایم پی او کے تحت گرفتار کیا ہے کیونکہ وہ  ایک روز ہسپتال میں فساد اور پولیس کے ساتھ پر تشدد تصادم کروانے کے بعد آج سریاب روڈ پر اپنا "حقوق" کا پرانا لبادہ اوڑھ کر دھرنا دینے بیٹھ گئی تھی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنانے والے بی ایل اے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن مین مارے جانے والے دہشتگرد دراصل مسنگ پرسن ہیں، پاکستان کا مؤقف ہے کہ جن کو مہرنگ "مسنگ بتاتی ہے" وہ درحقیقت اپنی مرضی سے بی ایل اے کے کیمپوں میں گئے ہوئے دہشتگرد ہیں۔ جب ان میں سے چند دہشتگرد مارے گئے اور ان کے ڈی این اے ٹیسٹ  کروا لئے گئے تو اب مہرنگ نے پہلے ہی شور مچا دیا جسے اس کے انڈیا اور پاکستان سے باہر موجود سرپرست خوب اچھال رہے ہیں۔ 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 سٹی42:  سریاب سے  گرفتار کی گئی  بی ایل اے کی "پر امن سرمچار" مہرنگ بلوچ کو کوئٹہ جیل منتقل کردیا گیا۔ اس مرتبہ معاملہ تین افراد کے قتل کا ہے لیکن مہرنگ کو سر دست تین ایم پی او کے تحت گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا ہے۔ 

ماہ رنگ بلوچ  11 مارچ کو جعفر ایکسپریس کو  ہائی جیک کر کے عورتوں، بچوں اور سکیورٹی فورسز کے چھٹی پر گھروں کو جا رہے  نہتے اہلکاروں کو یرغمال بنانے والے بی ایل اے کے  دہشتگردوں کو  ریسکیو آپریشن میں مارے جانے کے بعد ان کی لاشوں کو "گمشدہ افراد کی لاشیں" قرار دے کر کوئٹہ کے ہسپتال کے مردہ خانہ سے کچھ لاشیں زبردستی چھین کر لے جانے  کی کوشش اور اس کے بعد آج  کوئٹہ کے علاقہ سریاب میں ان لاشوں پر شر پسندی کرنے میں پیش پیش رہی۔

  آج اس نے نام نہاد "بلوچ یک جہتی کمیٹی" کے کارکنوں کو اکٹھا کر کے سریاب روڈ پر دھرنا دیا اور  اور  ریاست کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا  کیاجسے نیوز آؤٹ لیٹس کے رپورٹروں اور کیمروں نے بھی رپورٹ کیا اور سوشل میڈیا پر پاکستان سے باہر موجود دہشتگردوں اور ان کے ساتھیوں نے بھی پھیلایا۔  مہرنگ بلوچ کا جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنا کر قتل و غارت کرنے والے دہشتگردوں کی لاشوں کو لے کر ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کو انڈیا کے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور سوشل پلیٹ فارمز پر پاکستان کے دشمن شر پسندوں اور دہشتگردوں نے اس پروپیگنڈا کو اپنی  لگائی ہوئی آگ کو مزید بھڑکانے کے لئے ایندھن کی طرح استعمال کیا ہے۔

ماہ رنگ بلوچ نے جعفر ایکسپریس سانحہ کے بعد پاکستانی ریاست کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے اس ہائی جیکنگ میں ملوث دہشتگردوں کو مارنے کی سزا دی اور ان دہشتگردوں کی لاشوں کو متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کی۔ اس کی اس کوشش کو لے کر غیر ملکی میڈیا نے  دہشتردوں کے نیریٹیو کو بڑھاوا دیا اور پاکستان کی ریاست کا مزید مذاق اڑایا۔  اس پر ہی بس نہیں ہوا بلکہ ماہ رنگ کے محافظوں نے نام نہاد احتجاج کے دوران  فائرنگ کر کے تین افراد کو بھی قتل کر دیا۔

ماہ رنگ بلوچ اور دیگر 4 خواتین کو تین ایم پی او کے تحت ایک ماہ کیلئے جیل بھیجا گیا ہے۔ 

 مینٹیننس آف پبلک آرڈر (MPO) آرڈیننس، 1960 کی سیکشن 3، حکومت کو ایسے افراد کو گرفتار کرنے اور حراست میں لینے کے اختیارات دیتی ہے جنہیں عوامی تحفظ یا  پبلک آرڈر کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، اس قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ  چھ ماہ تک حراست میں رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے بتایا کہ جعفر ایکسپریس کے ہلاک دہشت گردوں کے حق میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران  تشدد  پر اترنے والے اشر پسند افراد  نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی تھی۔

 کمشنر حمزہ شفقات نے ہفتہ کے روز اپنے سرکاری اعلامیہ میں بتایا کہ "بلوچ یکجہتی کمیٹی" کے  لیڈروں کے ساتھ موجود مسلح افراد کی فائرنگ سے 2 مزدور اور ایک افغان شہری ہلاک ہوئے۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان  شاہد رند نے ایک نیوز آؤٹ لیٹ کو بتایا کہ سول اسپتال کوئٹہ پر حملے کے بعد بلوچ یکجہتی کونسل کی قیادت کو گرفتار کرلیا ہے۔ 

انہوں نے کہاکہ بی وائی سی کے نام نہاد احتجاج میں مسلح افراد شامل تھے۔ 

شاہد رند نے بتایا کہ خصوصی صورتِحال ہو  تو خصوصی قوانین کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی مارے گئے دہشت گردوں کی لاشوں کے لیے احتجاج کررہی تھی۔  پولیس نے  ان شر پسندوں  کو واٹر کینن کے ذریعے کم سے کم بے ضرر طاقت کے استعمال سے منتشر کرنے کی کوشش کی تھی۔

ماہ رنگ بلوچ کی "پر امن دہشت گردی"

ماہ رنگ جسے بی ایل او کی "ڈیفینڈر"  اور  "پر امن لڑائی لڑنے والی دہشتگرد" کہا جاتا ہے، اس نے اپنے کارکنوں اور دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو کل (آج)  بلوچستان میں "شٹر ڈاؤن ہڑتال" کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس ہڑتال کی وجہ یہ بتائی ہے کہ  قانون نافذ کرنے والے ادارے  11  مارچ کو جعفر ایکسپریس  پر  حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنانے والے دہشتگردوں کی لاشیں  اس کے حوالے کیوں نہیں کر رہی۔

ماہ رنگ بلوچ کون ہے

مہرنگ بلوچ کا باپ غفار بلوچ  بی ایل اے کا نطریاتی کارکن تھا۔ اس  کے متعلق مہرنگ بلوچ  اور اس کے ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ اسے ریاستی اداروں نے اپنی تحویل مینرکھا اور اس کی لاش بعد میں مل گئی۔  2011 سے اب تک مہرنگ بلوچ پاکستان کی ریاست کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا میں مصروف ہے۔ "مسنگ پرسن" کا فنامنا اس کے پروپیگنڈا کا مرکزی میدان ہے۔ اب بھی وہ جعفر ایکسپریس کو بولان کے ویرانے میں روک کر  نہتے مسافروں کو یرغمال بنانے والے بے رحم دہشتگردوں کے مارے جانے کے بعد ان کی لاشوں کو  "دراصل مسنگ پرسنز کی لاشیں" قرار دے کر پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور مسافر ٹرین کے نہتے مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کی اذیت جھیل چکی ریاست کو  حتیٰ کہ اس واقعہ میں بھی مجرم قرار دینے کے درپے ہے۔