ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت شروع

23 Jun, 2023 | 11:01 AM

Ansa Awais

(امانت گشکوری) ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت شروع، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے۔

 تفصیلات کےمطابق جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بنچ میں شامل  ہیں، درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرا دی ہیں،میری درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے،میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا،میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہوسکتا،سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں،کسی ملزم کی رہائی کی استدعا میری درخواست میں نہیں ہے،میں سول سوسائٹی کی نمائندگی کر رہا ہوں،آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقوں کے خلاف دلائل دونگا،سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں،1998 میں ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا،کوئی نہیں کہتا کہ ملزمان کا سخت سے سخت ٹرائل نہ کریں، انسداد دہشتگردی عدالت سے زیادہ سخت سزا کہاں ہوگی؟

 جسٹس منصورعلی شاہ 

  جسٹس منصور علی شاہ  کہا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا،آرمی ایکٹ ہو یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ فوجی عدالتوں میں ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو،سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کر رہے تو قانون کی بات کریں۔

 جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ آپ جو کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں،9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیادیہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے؟۔

مزیدخبریں