ویب ڈیسک: منی پور فسادات میں مزید 2 خواتین کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا جبکہ ریاست میں اکثریت سمجھے جانے والے میتیتی قبیلہ کے ہندو انتہا پسند رہنما نے کوکی قبیلے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دے دی ہے۔
بھارتی ریاست منی پور میں تقریباً ڈھائی ماہ سے دو قبیلوں میتیتی اور کوکی کے درمیان فسادات کا سلسلہ جاری ہے۔ میتیتی قبیلہ اور اس حوالے سے بھارت کی مرکزی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی خاموشی کے حوالہ اب بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔
کئی دنوں سے جاری فسادات میں اب تک 120سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ ریاست منی پور میں سینکڑوں مکانات کو جلایا بھی جا چکا ہے
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ریاستی انتظامیہ کو حالات کنٹرول کرنے کے لیے سخت انتظامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے لڑکیوں کو برہنہ کر کے پریڈ کروانے والے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لیکن پریڈ کروانے کے شرمناک فعل میں شریک دو سو سے زائد انتہا پسندوں کے خلاف کسی ٹھوس کارروائی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
عالمی میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق منی پور کے قصبے کانگپوکپی سے تعلق رکھنے والی دو قبائلی خواتین کو بھی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق خواتین کار واش میں کام کر رہی تھیں جہاں عصمت دری کا واقعہ پیش آیا۔ بعد ازاں خواتین کو کار واش سے گھسیٹ کر باہر لے جایا گیا جہاں وہ ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئیں جس کے بعد پولیس نے انکی لاش کو اسپتال منتقل کیا۔
منی پور میں جاری فسادات کے درمیان ہوئے اس جرم کی تفصیلات ہزاروں ایف آئی آرز کے پہاڑ کے نیچے دب کر رہ جاتیں تاہم مقتول خواتین کی ایک سہیلی ان کے اہل خانہ کو واقعے کے بارے میں آگاہ ن کر دیا۔
اس واقعے کی عینی شاہد خاتون ن اگلے دن ہسپتال گئیں تو انہیں بتایا گیا کہ دونوں خواتین زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ چکی ہیں۔ سہیلی نے یہ معلومات مقتول خواتین کے ایک کزن کے ساتھ شیئر کیں جو ہجوم سے بچنے کے لیے ایک چرچ میں چھپا ہوا تھا۔
مقتولین کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے ایک ساتھی نے لرزہ خیز واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ مردوں کا ایک بڑا گروپ کچھ خواتین کے ساتھ شام 5:30 بجے کے قریب کار واش پہنچا۔ یہ دونوں قبائلی خواتین کار واش میں ملازمہ کے طور پر کام کررہی تھیں۔ ہجوم میں شامل خواتین نے مردوں کو اس گھناؤنے جرم پر اکسایا تھا۔ اس ہجوم کا تعلق ہندو مذہب سے تھا جبکہ ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کی گئی دونوں خواتین مسیحی تھیں۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر متیتی قبیلے سے تعلق رکھنے والے رہنما پرامود سنگھ کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ کوکی قبیلے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دیتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک ماہ پہلے بھارت کے ایک مشہور صحافی کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں پرامود سنگھ نے بہت واضح اور ٹھوس الفاظ میں تشدد کو مزید بھڑکانے کی دھمکیاں دیں لیکن بھارت کی مرکزی حکومت کے سربراہ نریندر مودی نے اس صورتحال پر مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی اور ایسا ہی طرز عمل منی پور کے وزیر اعلی نے بھی اختیار کئے رکھا جو نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کا اتحادی ہے۔
ایک بھارتی صحافی کو انٹرویو کے دوران پرامود سنگھ کو واضح طور پر یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ تمام کوکی قبیلے کو صفحہ ہستی سے ختم کر دیا جائے گا کیونکہ کوکی قبیلے کے افراد ضروریات زندگی کو میٹی قبیلے تک پہچننے سے روک رہے ہیں۔
بھارتی صحافی کی جانب سے پرامود سنگھ سے دوبارہ پوچھا گیا کہ آپ کوکی قبیلے کے افراد کے خلاف باقاعدہ مہم چلانے کی بات کر رہے ہیں جس پر میٹی قبیلے کے رہنما کا کہنا تھا جی ہاں، ایسا ہو گا۔
منی پور کے وزیراعلیٰ کا تعلق بھی متیتی قبیلہ سے ہے۔