( سٹی 42 ) دنیا بھر میں سماجی روابط کی ویب سائٹس اور ویڈیو شیئرنگ ایپس نئی نسل اور شہرت کے دلدادہ افراد کی من پسند مصروفیت بن چکی ہے مگر کئی لوگوں پر اس کے استعمال کی زیادتی کے الزامات بھی عائد ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں سوشل میڈیا سماج پر مثبت اثر ڈال رہا ہے تو اسی سوشل میڈیا کے معاشرے پر منفی اثرات بھی پڑرہے ہیں۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ٹک ٹاک کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ ہر نوجوان اپنی ویڈیوز بناکر مشہور ہونے کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ لیکن اس ٹک ٹاک کےزیادہ استعمال سے بہت سے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ لیکن اب پولیس کی وردی بھی ٹک ٹاک بنانے میں استعمال ہونے لگی ہے۔
دو خواتین نے کانسٹیبل یوسف کی وردی پہن کر ویڈیوز بنائیں اور وائرل کردیں۔ آئی جی پنجاب کی جانب سے پولیس کی وردی میں ملبوس تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے منع کیا گیا ہے، مگر ان خواتین کی پولیس وردی میں ویڈیوز کے بارے میں پولیس کی جانب سے نا تو کوئی موقف سامنے آیا ہے اور نہ ہی تاحال کوئی کارروائی کی گئی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے پولیس اپنے پیٹی بھائی کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بہت سے پولیس اہلکاروں کی وردی میں ڈانس کرتے ہوئے ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جس کے بعد اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی۔
خیال رہے ٹک ٹاک پر بنائی جانے والی چند ویڈیوز پر یہ الزام بھی عائد کیاجاتا ہے کہ ان میں سماجی اخلاقیات کا خیال نہیں رکھاجاتا اور فحاشی و عریانی پھیلائی جاتی ہے۔