در نایاب: ایل ڈی اے سکیموں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کا منصوبہ سات سال بعد بھی نامکمل، دو ہزار تیرہ سے شروع ہونے والے منصوبے میں تئیس میں سے ایک بھی سکیم کا ریکارڈ کمپیوٹرائز نہ کیا جاسکا۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ریکارڈ شفٹنگ سیل بنا کر ایل ڈی اے کی تئیس سکیموں کا مکمل ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنا تھا۔ دو ہزار تیرہ میں پی سی ایس افسر عمران رضا عباسی کے دور میں کام شروع ہوا۔ عمران رضا عباسی ریکارڈ کمپیوٹرائز کرتے کرتے خود نیب کے شکنجے میں جا پھنسے۔ ایل ڈی اے نے ہیومن ریسورس، کمپیوٹر مشینری کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے جبکہ ریکارڈ سفٹنگ سیل میں کام کرنے والے افسران نے متعدد اعزازیے بھی وصول کیے۔
افسران و ملازمین کی کمی کے باوجود ریکارڈ سفٹنگ میں بڑی تعداد میں ہیومن ریسورس کو ضائع کیا گیا۔ ریکارڈ کمپیوٹرائز نہ ہونے سے مصطفی ٹاؤن، جوہر ٹاؤن جسی گھمبیر سکیموں کا ریکارڈ کا مسلہ حل نہ ہوا۔ ایل ڈی اے سکیموں میں ریکارڈ کمپیوٹرائز کرکے لینڈ مافیا سے جان چھڑانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
ایل ڈی اے حکام باقی شعبہ جات میں افسران کی کمی کو پورا کرنے کی بجائے سفٹنگ میں ایچ آر جھونکنے لگے۔ تین روز قبل بھی چھ سے زائد افسران کو اہم سیٹوں سے اٹھا کر ریکارڈ سفٹنگ میں پھینک دیا گیا جن مں صولت عباس، شفقت علی، کنول قیوم، عثمان بشیر، وجاہت فرحان، خالد حمید شامل ہیں۔ ریکارڈ سفٹنگ سیل میں پیسوں کے ضیاع کے علاوہ کوئی سنگ میل عبور نہ کیا جاسکا۔