ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بیوروکریسی میں سفارشی کلچر

بیوروکریسی میں سفارشی کلچر
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) وزیر اعظم عمران خان کا یہ نعرہ کہ بیوروکریسی کو سفارشی کلچر سے آزاد کریں گے، ختم ہو کر رہ گیا ہے اور پنجاب اور وفاق میں اکثر ٹرانسفر پوسٹنگ اب بھی سفارش کے بل بوتے پر ہو رہی ہیں عمران خان کے اس نعرے کی مکمل طور پر نفی ہو کر رہ گئی ہے حتیٰ کہ اب تو پاکستان مسلم لیگ ق کو بیوروکریسی میں افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے حوالے سے کوٹہ دے دیا گیا ہے۔

حال ہی میں سیکرٹری معدنیات پنجاب عامر اعجاز اکبر اور سیکرٹری ماحولیات زاہد حسین کو مسلم لیگ ق کے کوٹے اور ق لیگ کے صوبائی وزراء کی سفارش پر تعینات کیا گیا ہے اور چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان کو ان تقرریوں سے لاعلم اور سائیڈ پر رکھا گیا ہے۔ یہ دونوں سیکرٹری چیف سیکرٹری پنجاب سے بالا بالا ہو کر تعینات ہوئے ہیں دیکھیں اب یہ چیف سیکرٹری پنجاب کے ساتھ کس طرح چلتے ہیں یا فیل ہو جاتے ہیں۔

حال ہی میں سیکرٹری آبپاشی زاہد اختر زمان وفاقی وزیر شفقت محمود کی سفارش پر لگ گئے ہیں اور ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس ایک وفاقی عہدیدار شہزاد اکبر کی سفارش پر تعینات ہوئے ہیں اور آج کل انہیں کا حکم مان رہے ہیں۔ ڈی جی اینٹی کرپشن آج کل سرکاری زمینوں سے قبضہ واگزار کرانے میں وفاقی حکومت کے حکم پر عمل پیرا ہیں حالانکہ محکمہ اینٹی کرپشن کا کام انسداد رشوت ستانی کے طور پر کام کرنا ہے نہ کہ قبضہ چھڑانا۔

 قبضہ واگزار کرانا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے اور یہ کام ڈی جی اینٹی کرپشن کر رہے ہیں کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ اس میں مسلم لیگ ن کے سابق عہدیدار ملوث ہیں۔اس لئے حکومت مسلم لیگ ن کے سابق عہدیداران کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی غرض سے یہ کام کر رہی ہے اور تو اور صوبے کے ایک مقتدر افسرنے بھی ملک کے ایک طاقتور بیوروکریٹ کی سفارش پر تعیناتی حاصل کر رکھی ہے۔اس طرح ہر افسر کے پیچھے کسی نہ کسی سفارش کا سایہ ہوتا ہے اور اس سایہ کی مدد سے ہی حکمران ان افسران کو پسند یا نا پسند کرتے ہیں جن کے پاس سفارش نہیں ہوتی ہے انہیں بورڈ آف ریونیو، ممبر انکوائری یا دیگر کھڈے لائن کی تقرریاں دی جا تی ہیں۔

 آج کل گریڈ 20کے ایک ڈی ایم جی افسر ڈاکٹر نوید احمد چودھری کے پاس چونکہ سفارش نہیں ہے اور وہ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی تقرری لینے کے لئے چکر لگا رہے ہیں کبھی انہیں صوبہ سے باہر تبدیل کر دیا جاتا ہے اور کبھی ان کی بنائی گئی تجویز ڈراپ کر دی جاتی ہے۔ صوبے کے چیف ایگزیکٹو سردار عثمان احمد بزدار از خود ایک سفارش پر وزارت اعلیٰ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس کی گورننس کمزور ہونے کے باوجود وہ وزارت اعلیٰ کے عہدہ پر اس لئے برا جمان ہےں کہ اسے خاتون اول کی آشیر باد حاصل ہے۔

 جب صوبے کا چیف ایگزیکٹو سفارش پر لگے گا تو باقی کام کیسے بغیر کسی سفارش کے کئے جائیں گے۔ شفاف انتظامیہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کی حکومت پر ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے اور افسران میں اس وقت بے چینی پائی جاتی ہے کہ تقرری لینے کے لئے کس کی سفارش تلاش کی جائے اور کس سے رابطہ رکھا جائے اورکس کس کی خوشامد کی جائے کیونکہ اس وقت حکومت چلانے والے کافی لوگ ہیں جبکہ ماضی میں پنجاب میں صرف میاں شہباز شریف فرد واحد کا سکہ چلتا تھا اور سارے فیصلے فرد واحد کے ہاتھ میں ہوتے تھے لیکن اب یہ کام کئی لوگ سر انجام دے رہے ہیں۔

 سابق سیکرٹری آبپاشی سید علی مرتضیٰ کو اعلیٰ عدالتی عہدیداران کی حمایت حاصل ہے۔ فوجی کوٹے میں جو سول سروس جوائن کرتے ہیں وہ چونکہ ایک سلیکشن اور پک اینڈ چوز کی بنیاد پر سول سروس جوائن کرتے ہیں لہٰذا وہ ساری سروس میں سفارشی کلچر کو فروغ دیتے ہیں اور خود بھی سفارش کی بنیاد پر بقیہ سروس میں تقرریاں حاصل کرتے ہیں۔ جو کہ خود ایک المیہ ہے۔

کئی افسران تگڑی سفارش سے ایک بار حکمرانوں کے قریب آ جاتے ہیں پھر حکمرانوں کے منشور اور قربت کے باعث اپنا ایک مقام بنا لیتے ہیں۔ یہ افسران حکمرانوں کی ذاتی خواہشات کو بھی پورا کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی غربت بھی ختم کر لیتے ہیں اورخوشحال بن جاتے ہیں۔ پھر کئی ایک پر حکمرانوں کی قربت کا ایک لیبل بھی لگ جاتا ہے جیسے ہی وہ حکمران اقتدار سے ہٹتے ہیں تو یہ افسران بھی نیب اور اینٹی کرپشن کے راڈار پر آ جا تے ہیں۔ پنجاب میں اس وقت تحصیل انتظامیہ مقامی ایم پی اے کی سفارش پر لگائی جا رہی ہے اور تمام اے سی کی تقرری لینے کے لئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب شوکت علی افسران کو اراکین اسمبلی سے رابطہ کرنےکی ہدایت کرتے ہیں۔ ایس ایچ او اور بیٹ افسر لگنے کے لئے بھی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔

چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان ایک مضبوط افسر ہیں ۔ انہوں نے کئی افسران کو میرٹ پر بھی تعینات کیا ہے اور اپنی ایک اچھی ٹیم لے کر آئے ہیں اور آئی جی پولیس شعیب دستگیر نے بھی کافی کام میرٹ پر کئے ہیں۔ لیکن اب حکومت کی سیاسی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر مسلم لیگ ق کو بھی تقرر و تبادلوں میں کوٹہ دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ کئی تگڑی سفارشیں بھی متحرک ہو گئی ہیں جو کہ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کے اختیارات میں مداخلت ہے۔

 وزیر اعظم کے پی کے کا ماڈل لانے کے لئے چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کو فری ہینڈ دیں اور ان کے آپریشنل معاملات میں مداخلت بند کرائی جائے تاکہ پنجاب کو گڈ گورننس کا ماڈل صوبہ بنایا جا سکے اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچائے جا سکیں۔ جب میرٹ پر اور صحیح جگہ پر صحیح افسر تعینات ہوگا تو اسی فی صد مسائل از خود حل ہو جائیں گے

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر