سٹی42: جرمنی کے مشرقی شہر میگڈبرگ کے کرسمس بازار میں 20 دسمبر کے المناک واقہ نے شہر کو گہری اداسی میں دھکیل دیا ہے۔ روایت کے مطابق یہ دسمبر کا سب سے مصروف ویک اینڈ ہونا چاہیے تھا، لیکن پورے علاقے میں تمام سٹینڈز بند ہیں، سڑکوں پر پولیس ہے یا صرف وہ لوگ ہیں جو شراب اور جِنجربریڈ کے سٹالوں کے ارد گرد گھومتے دکھائی دیتےہیں۔جرمن پبلک براڈکاسٹر MDR کے مطابق میگڈبرگ کے سٹی کونسلر برائے پبلک آرڈر، رونی کروگ نے کہا ہےکہ کرسمس مارکیٹ بند رہے گی اور یہ کہ "مگڈبرگ میں کرسمس (شروع ہونے سے پہلے ہی) ختم ہو گیا ہے"۔
فرش پر سرخ موم بتیاں جھلملا رہی ہیں، متاثرین کو خراج تحسین پیش کیا جا رہاہے۔
لوکاس، ایک ٹرک ڈرائیور نے جن کا نام لوکاس ہے، بین الاقوامی صحافتی ادارہ کے لئے لکھنے والے ایک صحافی کو بتایا کہ وہ دو روز پہلے مرنے والوں کی تعظیم کے لئےآج آنے پر مجبور ہیں کیونکہ "جب یہ ہوا تو میں وہاں نہیں تھا" ۔ "لیکن میں یہاں میگڈبرگ میں کام کرتا ہوں۔ میں یہاں ہر روز ہوتا ہوں۔ میں نے یہاں سے ہزار بار گاڑی چلائی ہے۔" "یہ یہاں میگڈبرگ میں ہر ایک کے لیے ایک المیہ ہے۔ مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔" "ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ متاثرین اور ان کے خاندانوں کو اس سے نمٹنے کی طاقت ملے گی۔"
یہاں دکھ ہے لیکن غصہ بھی ہے۔
یہاں بہت سے لوگ اس حملے کو سیکورٹی میں ایک خوفناک کوتاہی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ دعویٰ ہے جسے حکام مسترد کر رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ حملہ آور ہنگامی صورتحال مین امدادی کارکنوں کے لئےبنائے گئے راستے کا استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ میں داخل ہوا تھا۔ یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ اس اہم راستے پر نظر کیوں نہین رکھی گئی۔
ایک شہری مائیکل نے، جو متاثرین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بھی آئے تھے، کہا کہ "بہتر سیکیورٹی ہونی چاہیے تھی"۔ "ہمیں بہتر طور پر تیار ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔"
اس واقعہ کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب بعض گروہ اسے اشتعال اور نفرت پھیلانے سے لے کر سیاسی مقاصد کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے ایک گروپ کو جرمنی کے چانسلر اولاف شولز اور علاقائی سیاست دانوں کے خلاف اونچی آواز میں انتہائی سرسری نوعیت کی شکایتیں زیادہ غصیلے انداز سے دہراتےسنا گیا۔
"وہ ہمارے ٹیکس کا پیسہ برباد کر رہے ہیں، وہ صرف اپنے آپ کو تلاش کر رہے ہیں۔ انہیں ہم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم صرف خالی وعدے سنتے ہیں،" ایک آدمی نے کہا۔ "وہ جو کچھ یہاں ہوا اسے الٹ رہے ہیں اور اپوزیشن پر الزام لگانا چاہتے ہیں اور اسے اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔"
ہفتے کی شام، تقریباً اسی وقت جب میگڈے برگ کے گوتھک کیتھیڈرل کے سامنے کا چوک ایک میموریل سروس کو دیکھنے والے سوگواروں سے بھرا ہوا تھا، قریب ہی ایک پروٹیسٹ بھی ہوا تھا۔ اس پروٹیسٹ میں لوگوں نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا "اب نقل مکانی!" (اب یہاں سے نکلو!) -یہ ایک متشدد سیاسی تصور ہے جو انتہائی دائیں بازو کے درمیان مقبول ہے - اس پروٹیسٹ میں کوئی چیخ رہا تھا، "جو لوگ جرمنی سے محبت نہیں کرتے انہیں جرمنی چھوڑ دینا چاہیے"۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس حملے کا جرمنی کے آئندہ انتخابات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ جب موجودہ چانسلر اور ان کے میں سٹریم مخالف ایک دوسرے کی اہلیت ، قابلیت اور نیت پر حملے کرنے میں مصروف ہیں AfD جیسے انتہا پسند، انتہائی دائیں بازو کے کارکن تسلسل کے ساتھ امیگرنٹس کے خلاف نفرت کی آگ دہکانے میں جتے ہوئے ہیں۔
کمزور ترین مارے گئے
مگدے برگ کے کرسمس بازار میں گھسنے کے بعد جنونی طالب المحسن نے اپنی کار کی رفتار تیز رکھی اور پیدل چلتے ہجوم میں گھسا دی، بہت سے لوگ اس کی کار کی زد میں آ کر کچلے گئے جن میں سے 4 عورتیں اور ایک بچی جاں بحق ہو گئے، چالس کے لگ بھگ شدید زخمی ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد دو سو تک پہنچی۔ طالب المحسن نے بازار مین ایک سرے سے دوسری سرے تک کار کو تیز رفتار سے بھگایا، اور بازار سے صحیح سلامت نکل گیا، اس دوران پولیس کو کال کیا جا چکا تھا لیکن پولیس اسے واردات مکمل کرنے کے بعد ہی سڑک پر ٹریفک میں چلتے ہوئے روک کر پکڑنے میں کامیاب ہوئی۔
نام نہاد دہریہ طالب المحسن کون ہے، سٹیریو ٹائپ لیبلنگ کے پیچھے اس کی اصل شخصیت کیا ہے
طالب عبد المحسن 50 سالہ سعودی نژاد سائیکاٹرسٹ ہے، برنبرگ میں رہتا ہے، یہ قصبہ میگڈبرگ سے 40 کلومیٹر جنوب میں ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اسے قتل کی پانچ وارداتوں، قتل کی متعدد کوششوں اور خطرناک جسمانی نقصان ک پہنچانے کے الزامات میں ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔
طالب المحسن کے اس درندوں جیسےحملے کے پیچھے اس کا مقصد ابھی تک واضح نہیں ہے لیکن حکام کا خیال ہے کہ اس نے اکیلے ہی حملہ کیا۔
عبد المحسن 2006 میں جرمنی آیا تھا اور 2016 میں اسے "پناہ گزین" کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ پناہ حاصل کرنے کے لئے اس کا فراہم کردہ جواز "مذہب اسلام کو ترک کر دینے کی وجہ سے آبائی ملک میں جان کو لاحق خطرہ" تھا لیکن پناہ حاصل کرنے کے کچھ ہی سال بعد افسوسناک انداز سے یہ شخص خود کو پناہ دینے والے معاشرہ کے بے ضرر افراد کی زندگیوں کے درپے ہو گیا۔
اس شخص نے ایک ویب سائٹ بھی چلائی جس کا مقصد "دوسرے سابق مسلمانوں کو ان کے آبائی علاقوں میں 'ظلم و ستم سے بھاگنے' میں مدد کرنا " تھا، اس شخص کو اسلام ترک کرنے کے دعوے اور بلند آہنگ بیان بازی کے سبب مغربی میڈیا مین توجہ بھی ملی۔ 2019 میں بی بی سی نے اس شخص سے اس کی ویب سائٹ کے بارے میں انٹرویو کیا تھا۔
جرمنی ماضی میں متعدد مہلک اسلام پسند حملوں کی زد میں رہا ہے، لیکن تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اب تک جو شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں، وہ اس معاملے میں ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
یہ حملہ کسی اسلام پسند نے نہیں کیا نہ کسی اسلام کے دشمن نے، بظاہر حملہ کرنے والا شخص اپنے بارے میں کچھ بھی بتاتا رہا، اس کے افعال اس کے اقوام سے الگ بلکہ برعکس تھے۔
یہ حملہ ایک مریض ذہنیت کی نشاندہی کر رہا ہے جو معمولی شخصی مفادات کی خاطر مہارت کے ساتھ جرمن معاشرہ میں موجود تضادات سے کھیلتا رہا اور اپنے مرض کو نہ صرف چھپانے میں کامیاب رہا بلکہ اسے بڑھاتا ہی رہا، آج کل وہ جرمنی کی ایک انتہا پسندی کی طرف مائل سیاسی گروہ بندی مین گھس کر خود کو چھپا رہا تھا، یہاں تک کہ پانچ انسان اس کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے گئے اور اب سارا جرمنی ہکا بکا یہ دیکھ رہا ہے کہ کس سے کہاں غلطیاں ہوئیں۔
اب چند سال بعد جرمنی کے نارمل رویئے رکھنے والے لوگ اس جنونی کو "اسلام فوبِک" کی حیثیت سے شناخت کرنے پر مجبور ہیں۔ بظاہر یہ بھی جلد بازی میں کی جا رہی ایک سٹیریو ٹائپ لیبلنگ ہے حالانکہ ابھی کوئی ٹھوس سائنسی شواہد موجود نہیں کہ یہ شخص واقعتاً فوبِک تھا یا محض"جگہ بنانے" کی نیت سے مذہب پر زبان سےحملے کرتا تھا۔ کیونکہ اس کا سنگین نفرت اور تشدد کا مظہر جرم مسلمانوں کی بجائے عام جرمن شہری مسیحیوں کے خلاف نکلا جس سے اس نے کبھی نفرت کا رسمی اظہار نہیں کیا تھا۔
جرمنی کی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ "دیکھنے سے صاف" ہے کہ مشتبہ شخص "اسلام فوبک" خیالات رکھتا ہے۔
سوشل میڈیا پر، وہ اسلام کا کھلم کھلا ناقد دکھائی دیتا رہا ہے، اور اس نے "جرمن حکام کی جانب سے یورپ کو اسلامی بنانے" کی مبینہ سازش کے حوالے سے سازشی نظریات کو بھی فروغ دیا ہے۔
اس نے سوشل میڈیا پر جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی (AfD) کے لیے بھی ہمدردی کا اظہار کیا، پارٹی کے رہنما اور ایک انتہائی دائیں بازو کے کارکن کی پوسٹس کو دوبارہ ٹویٹ کیا۔
میگڈبرگ پولیس کے سربراہ ٹام اولیور لنگہانس نے اس شخص کی گرفتاری کے بعد کہا کہ پولیس نےپہلے اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ آیا مشتبہ شخص کو ممکنہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، لیکن یہ بحث ایک سال پہلے کی تھی۔
پولیس آفیسر نے جرمن اخبار بِلڈ کو بتایا کہ تفتیش کار "تفصیل سے" جانچیں گے کہ ماضی میں عبدالمحسن کے بارے میں حکام کے پاس کیا معلومات تھیں اور اس سے کیسے تفتیش کی گئی تھی۔
جرمن دفتر برائے مہاجرت اور پناہ گزین نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اعلان کیا کہ اس نے مشتبہ شخص کے بارے میں شکایت درج کرائی ہے، جسے اس نے "سنجیدگی سے" لیا ہے، لیکن چونکہ یہ دفتر کوئی تفتیشی ادارہ نہیں ہے، اس لیے شکایت کو دیگر حکام کو بھیج دیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ حکام کو ایک اطلاع سعودی عرب کے حکام کی جانب سے بھی ملی ہے۔؎
تعصب نے سعودی وارننگز کو نظرانداز کروا دیا؟؟
سعودی حکومت کے ایک قریبی ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے جرمن حکام کو چار سرکاری نوٹیفیکیشن بھیجے جنہیں "نوٹس وربل" کہا جاتا ہے، جس میں انہیں خبردار کیا گیا کہ یہ شخص طالب المحسن "انتہائی انتہا پسندانہ خیالات" رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے جرمنی میں بیشتر لوگ طالب المحسن کے بنائے ہوئے اسلام ترک کرنے کے نیریٹیو سے اس قدر قائل رہے ہیں کہ انہوں نے سعودی حکام کی وارننگز کو تعصب کی ہی نظر سے دیکھا۔
انسداد دہشت گردی کے ایک "ماہر "نے برطانوی نشریاتی ادارہ کے سامنے اعتراف کیا کہ ان کی دانست میں سعودیوں نے کسی ایسے شخص کو بدنام کرنے کے لیے غلط معلومات کی مہم چلائی ہے جس نے نوجوان سعودی خواتین کو جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔
فیڈرل کریمنل پولیس آفس (BKA) کے سربراہ ہولگر منچ نے پبلک براڈکاسٹر ZDF کو بتایا کہ ان کے دفتر کو نومبر 2023 میں سعودی عرب سے ایک نوٹس موصول ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی پولیس نے مناسب تفتیشی اقدامات کیے، لیکن معاملہ غیر مخصوص تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشتبہ شخص کے "حکام کے ساتھ مختلف وقتوں میں رابطے ہوئے تھے، اس نے کئی بار حکام کی توہین کی اور دھمکیاں بھی دی تھیں، لیکن تب بھی اسے پرتشدد کارروائیوں کے لیے نہیں جانا جاتا تھا"۔