ویب ڈیسک: کراچی کی مقامی عدالت نے 8 کروڑ 60 لاکھ روپے کرپٹو کرنسی اسکینڈل میں مشہور ٹی وی میزبان وقار ذکا کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارہ ( ایف آئی اے) نے وقار ذکا کو رواں برس کے آغاز میں مبینہ طور پر اپنے بینک اکاؤنٹ سے ورچوئل کرنسی کی ٹرانزیکشن کی انکوائری کے سلسلے میں مقدمے میں نامزد کیا تھا۔ کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں جمعرات کو سماعت کے دوران وقار ذکا پیش نہیں ہوئے۔
عدالت نے نے وقار ذکا کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کردیا اور سماعت 5 جنوری تک ملتوی کردی جبکہ وقار ذکا مبینہ طور پر مقدمے میں گرفتاری سے بچنے کے لیے مفرور ہیں۔
وقار ذکا کے خلاف انکوائری
ایف آئی اے نے بتایا کہ فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کی وصولی پر وقار ذکا کے خلاف ایک انکوائری شروع کردی گئی تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ تین برس کے دوران ان کے بینک اکاؤنٹ میں مجموعی طور پر 8 کروڑ 61 لاکھ روپے آئے اور 8 کروڑ 70 لاکھ روپے جاری کیے گئے اور اسی طرح بینک اسٹیٹمنٹ میں انکشاف ہوا کہ ان کے بینکوں میں پیسے بیرونی ترسیلات اور چیک کے ذریعے آئے۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ باہر سے آنے والی رقم خاندان کے مختلف اراکین کے اکاؤنٹس میں انٹرنل ٹرانسفر کے ذریعے نکالی جاتی تھی۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ وقار ذکا سوشل میڈیا کو فلاحی مقاصد اور انٹرنیشنل فنڈنگ کے لیے استعمال کرتے تھے، جس کے ذریعے انہوں نے 68 لاکھ حاصل کیے اور بینکوں سے رقم پے آرڈر یا انٹربینک فنڈ ٹرانسفر کے ذریعے نکالی گئی۔
ایف آئی اے نے الزام عائد کیا کہ ’پبلک ڈیٹا بیس میں درجنوں خبریں، بلاگز اور ویڈیوز پائی گئیں جس سے وقار ذکار کی کرپٹو کرنسی میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا ثبوت ملتا ہے‘۔مزید بتایا گیا کہ ’انکوائری کے دوران بٹ کوائن یا کرپٹو کرنسی سے متعلق پوسٹس ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں پائی گئی، ملزم نے بٹ کوئن جیسی کرپٹو کرنسی کو فروغ بھی دیا‘۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ بینک اور اداروں کے ریکارڈز کی نقول اور زبانی شواہد کی صورت میں حاصل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ ملزم بینکوں کے قواعد و ضوابط اور ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی کی تجارت اور فنڈز کی منتقلی اور منافع حاصل کرنے کی غرض سے ورچوئل اثاثوں کے لیے سہولت کاری میں فراڈ اور بددیانتی کرتے پایا گیا۔
مزید بتایا گیا کہ انکوائری شروع کرنے کے بعد ملزم کو طلب کیا گیا تو انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کردیا۔
الزامات دہراتے ہوئے بتایا گیا کہ ملزم کو سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف قابل اعتراض مواد نشر کرنے اور بیانات دینے، سرکاری عہدیداروں کو دھمکانے اور عوام کو ریاست کے خلاف اکساتے ہوئے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا۔ ایف آئی اے نے کہا کہ وقار ذکا مبینہ طور پر پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016، تعزیرات پاکستان، انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2020 اور فارن ایکسچینج ریگیولیشن ایکٹ 1947 کے تحت قابل سزا جرم کے مرتکب ہوگئے ہیں۔