(مہوش نثار) امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے شام اور افغانستان سے اپنی فوج کے انخلاءکا اعلان کرکے نہ صرف اپنے اتحادیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے بلکہ اپنے حریفوں کو بھی حیران کردیا ہے۔مشرق وسطیٰ بالخصوص شام میں جاری جنگ کو امریکہ کا اس طرح خیر آباد کہنا خطے میں کیا تبدیلی لائے گا۔یہ تو کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اس بات کا تقابلی جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ کیا امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے ہیں۔
سابق صدر اوباما نے کہا تھا کہ شامی صدر بشارالاسد کو عہدے سے ہٹانے سے ہی شام کا مسئلہ حل ہوگا۔پھر ٹرمپ اقتدار میں آئے انہوں نے بھی یہی بات کی اور بشارالاسد کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے حتیٰ کہ فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ زمینی فوج بھی شام کی سرزمین پر اتار دی۔لیکن کیا بشارالاسد کا اقتدار ختم ہوگیا؟کیا شام میں جنگ بندی ہوگئی؟کیا باغی دھڑے کامیاب ہوئے؟ان سب سوالوں کا جواب ہے۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔بلکہ حالات مزید ابتر ہوئے۔ بشارالاسد مزید مضبوط ہوئے۔باغیوں اور داعش سے کئی علاقوں پر قبضہ واپس لیا۔ترکی شام کی جنگ میں کود پڑا۔ پھر امریکہ نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔
لیبیا میں اقوام متحدہ کا کندھا استعمال کرکے اٹلی،برطانیہ،فرانس اور امریکہ نے قذافی کی حکومت کا تختہ الٹا۔کرنل معمر قذافی کو عبرت کا نشان بنایا لیکن کئی سال گزرنے کے بعد بھی عالمی طاقتیں لیبیا میں امن نہ لا سکیںاور نہ ہی مرضی کی حکومت بنا سکیں۔بلکہ اس وقت تک لیبیا میں دو سے تین متوازی حکومتیں چل رہی ہیں۔پورا ملک تباہ کردیا گیا۔یہ سب کچھ ممکن ہو۔۔روس اور چین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے اقوام متحدہ کی قرارداروں کا ساتھ دیا اور اب پچھتا رہے ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے لیبیا سے کوئی سبق نہیں لیا لیکن شام کے معاملے میں روس نے لیبیا والی غلطی نہیں دہرائی۔
روس نے نہ صرف اقوام متحدہ میں شام کا ساتھ دیا بلکہ شام کی سرزمین پر بھی شامی فورسز کی مدد کی آج حالات سب کے سامنے ہیں۔۔بشارالاسد بھی اپنی جگہ پر قائم ہیں اور روس بھی اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کو خالی ہاتھ جانا پڑرہا ہے۔اب روس طے کرے گا کہ شام کا مستقبل کیا ہوگا۔شام کا معاملہ امریکہ کی عالمی خارجہ پالیسی کی ایک بڑی ناکامی کے طور پر سامنے آیا ہے۔
دوسرا فیصلہ۔۔۔افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاہے۔افغانستان کا محاذ وہ ہے جس نے کل کی سپر پاور سوویت یونین کے ٹکڑے کئے۔معاشی لحاظ سے روس کو دیوالیہ کردیا۔اور یاد رہے اب افغانستان ہی وہ میدان جنگ ہے جس نے روس کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔معاشی اور دفاعی طاقت بنایا ،کل کے مجاہدین جو امریکہ کے منظور نظر تھے آج روس میں بیٹھ کر افغانستان کے مسئلے کا حل نکال رہے ہیں۔17برس ہوگئے۔
امریکہ نے ایک انچ بھی افغان طالبان کے قبضے سے واپس نہیں لیا۔دن بدن افغان طالبان کا پلڑا بھاری ہوتا جارہاہے۔ 17سال بعد،امریکہ افغان طالبان سے ان کی ہی شرائط پر براہ راست مذاکرات کرنے پر مجبور ہے۔افغان طالبان کا پہلا مطالبہ تھا کہ افغانستان سے غیرملکی فوج کا انخلاءہوپھر بات چیت کی جائے گی۔امریکہ نے افغانستان سے فوج واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے۔شام کی طرح افغانستان میں کیا امریکہ فاتح ہوکر جارہاہے۔کیا مقاصد حاصل ہوگئے؟تو اس سوال کا جواب بھی نہیں میں ہی ہے۔
شام میں بھی امریکہ کے اتحادی تشویش میں مبتلا ہیں کہ امریکہ بیچ منجدھار میں چھوڑ کر جارہاہے اور افغانستان میں بھی افغان حکومت اور نیٹو تذبذب کا شکار ہے کہ امریکہ کیوں بھاگ رہاہے۔افغان حکومت کو یہ خوف ہے جو کہ حقائق پر بھی مبنی ہے کہ اگر امریکہ طالبان سے مذاکرات کرکے واپس چلا گیا توطالبان کے آگے افغان حکومت کھڑی نہیں ہوسکے گی اور افغانستان میں پھر طالبان کی حکومت آجائے گی۔
امریکہ کے بغیر مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیا کی بساط کیا ہوگی۔روس اور چین اس گریٹ گیم کے پہلے حصہ میں کامیاب ہوچکے ہےں۔سنٹرل ایشیا میں پاکستان کا کردار بھی گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اہم ہوتا جارہاہے۔سی پیک کی وجہ سے پاکستان اس گریٹ گیم کا اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔چین کا ادراک چین اور روس کرچکے ہیں لیکن امریکہ کو کافی دیر بعد سمجھ آئی جب پانی سر سے گزر چکا ہے۔بھارت پر امریکی نوازشات نے پاکستان کو دور کیا اور روس کو پاکستان کے قریب کردیا جس میں بلاشبہ چین کا بھی اہم کردار ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے 17سال بعد وہ فیصلے کردئیے جو اس دوران کئی سابق امریکی صدور نہ کرسکے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان آج جس مقام پر کھڑا ہے اور خطے کے اہم فیصلوں میں اس کی مدد اور مرضی جس طرح شامل ہے اور اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے معاشی مسائل حل کر پاتا ہے یا نہیں۔۔