ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

خواتین کی آواز پر بھی پابندی

Afghanistan new laws against women, Oppression, suppression, curbs, Afghan Taliban, Afghan Women, Amar Bilmaroof, First formal declaration of vice and virtue laws, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42 :  افغانستان کے طالبان حکمران اسلامی حکومت کے تحت ایک سخت نئے قوانین کے تحت عوامی زندگی میں خواتین کی آواز پر  کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔

افغانستان کی طالبان حکومت کے  ترجمان نے کہا کہ یہ قوانین سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی منظوری کے بعد بدھ کو جاری کیے گئے، اور ان میں روزمرہ کی زندگی کے پہلوؤں جیسے عوام کی نقل و  حرکت، موسیقی،  مردوں کے  شیو بنانے اور  سماجی تقریبات  میں مختلف پابندیوں کا اضافہ  کیا گیا۔ ان مین سے سنگین ترین پابندی خواتین کا بلند آواز سے بات کرنا ہے، نئے قوانین خواتین کی آواز کو بے شرمی اور مباشرت پر مائل کرنے کا سبب تصور کرتے ہیں۔

نئے قوانین میں سے،  آرٹیکل 13 خواتین سے متعلق ہے: اس میں کہا گیا ہے کہ عورت کے لیے ہر وقت عوامی مقامات پر اپنے جسم کو پردہ  سے ڈھانپ کر رکھنا لازمی ہے اور یہ کہ اور" فتنہ سے بچنے کے لئے"  چہرے کو ڈھانپنا ضروری ہے۔ لباس باریک، تنگ یا چھوٹا نہیں ہونا چاہیے۔

عورتوں پر بھی فرض ہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم مردوں کے ساتھ عورتوں کے سامنے بھی ڈھانپ کر رکھیں تاکہ  وہ بدکاری سے بچ سکیں۔

عورت کی آواز کو  اکسانے کا سبب سمجھا جاتا ہے اور اس لیے عورتوں کو عوام میں گاتے، تلاوت کرتے یا بلند آواز میں کچھ پڑھتے ہوئے نہیں سنا جانا چاہیے۔

 عورتوں کے لیے ان مردوں کی طرف دیکھنا حرام ہے جن سے ان کا تعلق خون یا نکاح سے نہ ہو ۔

وزارت   امر بالمعروف و مہی عن المنکر  کے ترجمان مولوی عبدالغفار فاروق نے جمعرات کو نئے قوانین کے بارے میں کہا، "انشاء اللہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ اسلامی قانون نیکی کے فروغ اور برائی کے خاتمے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔"

  امر بالمعروف و مہی عن المنکر  کے قوانین کا پہلا باضابطہ اعلان
بین الاقوامی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ افغانستان میں   امر بالمعروف و مہی عن المنکر  کے قوانین کا مجموعہ   114 صفحات پر مشتمل، 35 آرٹیکلز کی دستاویز ہے۔  افغانستان میں 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد، جب طالبان نے امیر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ایک وزارت بھی قائم کی، تب سے افغانستان میں بد اخلاقی کے تدارک کے  قوانین کا پہلا باضابطہ اعلان تشکیل دیا گیا ہے۔ 

یہ قوانین امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت کو  عوام کے  ذاتی طرز عمل کو ریگولیٹ کرنے،  سخت انتباہ اور گرفتاری جیسی سزاؤں کا انتظام کرنے کے لیےبااختیار بنائیں گے۔

ان قوانین کے تحت طالبان حکومت کے متعلقہ اہلکار اگر یہ سمجھیں گے کہ کسی شہری نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو وہ انہین گرفتار تک کر سکیں گے۔ 

واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے سکول بند کئے جانے کے بعد بعض علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے "خفیہ سکول"  جہاں لڑکیاں چھپ کر جاتی ہیں اور کافی وقت تعلیم حاصل کرنے میں گزاررتی ہیں۔ طالبان کی طرف سے سکول بند کرنے سے افغان لڑکیاں اور خواتین سیکھنے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔ نئے قوانین کے نفاذ کے بعد خدشات سامنے آ رہے ہیں کہ لڑکیوں کی سخت پردہ مین رہ کر  سرگرمیوں کو مزید سخت سکروٹنی اور پابندیوں کا سامنا ہو گا۔ 
طالبان کے قوانین جانداروں کی تصاویر کی اشاعت پر بھی پابندی لگاتے ہیں، جس سے  پہلے سے ہی سخت پابندیوں کا نشانہ بنے ہوئے افغان میڈیا منظرنامے کو  مزید دباؤ کا خطرہ ہے۔ موسیقی کے آلات بجانا؛ تنہا خواتین مسافروں کی نقل و حمل؛ اور "غیر محرم" مردوں اور عورتوں کا  ملنا جلنا اب مزید پابندیوں کے نفاذ سے مزید مشکل ہو جائے گا۔ یہ قوانین مسافروں اور ٹرانسپورٹ ڈرائیوروں کو مقررہ اوقات میں نماز لازمی ادا کرنے کا پابند  بھی بناتے ہیں۔

وزارت امر بالمعروف  کی ویب سائٹ کے مطابق،  نیکی کے فروغ میں نماز، مسلمانوں کے کردار اور طرز عمل کو اسلامی قانون کے مطابق بنانا، خواتین کو  مکمل پردہ کرنے کی ترغیب دینا، اور لوگوں کو اسلام کے پانچ ستونوں کی تعمیل کی دعوت دینا شامل ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برائی کے خاتمے میں لوگوں کو اسلامی قانون کے ممنوعہ کاموں سے منع کرنا شامل ہے۔

گزشتہ ماہ، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وزارت افغانوں میں احکام اور ان کے نفاذ کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں کے ذریعے خوف و ہراس کا  ماحول پیدا کرنے  میں حصہ ڈال رہی ہے۔

اس  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امر بالمعروف کی  وزارت کا کردار عوامی زندگی کے دیگر شعبوں میں پھیل رہا ہے جس میں بشمول میڈیا کی نگرانی اور منشیات کی لت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کے مشن کی ایک سینئیر عہدیدار فیونا فریزر نے کہا کہ  "رپورٹ میں بیان کردہ متعدد مسائل کے پیش نظر،  افغان شہریوں کے ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ یہ نگرانی بڑھ رہی ہے اور اس میں توسیع تمام افغانوں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے خاصی تشویش کا باعث ہے۔"