سٹی42: سپریم کورٹ آف پاکستان نے مشہور "مبارک ثانی ضمانت کیس" میں پنجاب حکومت کی نظر ثانی درخواست کے مقدمہ میں وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے متنازعہ پیراگراف حذف کردیے۔
سپریم کورٹ میں مبارک ثانی ضمانت کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ پر پنجاب حکومت کی جانب سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکی۔
آج سماعت کے آخری روز عدالت نے علما اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کے دلائل ک بھی سنے۔ اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ سنایا اور بعد ازاں تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا جس میں تحریر ہے کہ عدالت نے وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے معترضہ پیراگراف حذف کردیئے ہیں۔
مبارک ثانی ضمانت کیس کا تحریری حکم نامہ
جمعرات کی شام جاری ہونے والے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے24 جولائی 2024 کےفیصلے میں تصحیح کے لیے وفاق کی متفرق درخواست آئی، اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی تھی، وفاق کی درخواست میں بعض جید علما کا نام لے کر استدعا کی گئی تھی کہ علما کرام کی آرا کو مدنظر رکھا جائے، وفاق کی درخواست منظور کرتے ہوئے علما کرام کو سننے کے لئے نوٹس جاری کیا گیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ علما نے معترضہ فیصلے کے متعدد پیرا گرافس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ان کو فیصلہ سے حذف کرنے کے لیے تفصیلی دلائل دیئے۔علما نے اس موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پیش نظر رکھنے پر بھی زور دیا۔
حکم نامے میں بتایاگیا کہ عدالت تمام دلائل سننے کے بعد وفاق کی درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے مؤرخہ 6 فروری 2024 کے حکم نامہ اور مؤرخہ 24 جولائی 2024 کے فیصلہ میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگر افس کو فیصلہ سے حذف کر رہی ہے اور ان حذف شدہ پیر اگر افس کو نظیر کے طور پر پیش یا استعمال نہیں کیا جاسکےگا۔ ٹرائل کورٹ ان پیراگر افس سے متاثر ہوئے بغیر مذکورہ مقدمےکا فیصلہ قانون کے مطابق کرے، اس مختصر حکم نامے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
آج سماعت میں کیا ہوا؟
آج دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیےکہ اگر ہم سےکوئی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے، پارلیمنٹ کی بات سر آنکھوں پر ہے، آئین کی پچاسویں سالگرہ پر میں خود پارلیمنٹ میں گیا، آپ کا شکریہ آپ ہمیں موقع دے رہے ہیں،کبھی کوئی غلطی ہو تو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ان کا شکریہ۔
وفاقی حکومت کے نمائندہ اٹارنی جنرل کی معروضات
اٹارنی جنرل نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ نظرثانی کی درخواست پر جب آپ نے فیصلہ دیا توپارلیمنٹ اور علمائےکرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، کہا گیا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ سپیکر قومی اسمبلی کا خط ملا تھا اور وزیراعظم نے بھی ہدایات دی تھیں؛ ظاہر ہے کہ دوسری نظرثانی تو نہیں ہوسکتی، اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئے ہیں، فریقین کو نوٹس جاری کردیئےگئے تو فریقین عدالت میں اور ویڈیولنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں، یہ معاملہ مذہبی ہے تو علماکرام کو سن لیا جائے۔
عدالت تعین کرے گی کہ کون سا عالم ہماری راہنمائی کرے
اٹارنی جنرل کی معروضات کے جواب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ کون کون سے علما عدالت میں موجود ہیں؟ ہم تعین کرناچاہتےہیں کہ ہماری کون کون رہنمائی کرےگا، چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہےتوبتائیں، دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔
عالم دین مفتی تقی عثمانی اس سماعت کے وقت ملک سے باہر تھے، عدالت نے انہیں ترکیہ سے بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی سہولت فراہم کی۔
کسی وکیل کو نہیں سنیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سماعت میں کسی وکیل کو نہیں سنیں گے؛ یہ واضح کر رہے ہیں۔
انہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعہ حاضر مفتی تقی عثمانی کو مخاطب کر کے کہا، تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں؛ جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت سی دستاویزات ملیں۔ اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلےکی پوری کتاب بن جاتی۔ ان تمام دستاویزات کو نہیں دیکھ سکا وہ میری کوتاہی ہے۔ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں ہیں اور جو اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں۔ اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے۔ ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے۔ ہم عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں، میں کسی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔
عدالت نے مفتی تقی عثمانی، مولانافضل الرحمان، مفتی شیرمحمد اور عدالت میں حاضر بعض دیگر علما سےمعاونت لینےکافیصلہ کیا۔ ابو الخیرمحمد زبیر، فرید پراچہ بھی سپریم کورٹ کی معاونت کیلئے حاضر تھے۔
پیراگراف نمبر 7 اور 42 حذف، مقدمہ کی دفعات بحال کی جائیں، مفتی تقی عثمانی
مفتی تقی عثمانی نے سپریم کورٹ فیصلے کے دو پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیراگراف نمبر 7 اور پیراگراف نمبر 42 کو حذف کیا جائے۔ مفتی تقی عثمانی نے مبارک ثانی ضمانت کیس میں بعض دفعات ختم کرنےکے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کی۔ انہوں نےکہا کہ عدالت دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونےکا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑے۔ اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہیے، عدالت نے سیکشن 298 سی کو مدنظر نہیں رکھا۔ معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑتے ہیں۔
اب آگے دیکھنا چاہئے: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے مفتی تقی عثمانی کے جواب میں کہا کہ 6 فروری کا فیصلہ نظرثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے۔ اب آگے دیکھنا چاہیے۔ اگر سب علما کی رائے فیصلے میں شامل ہوتی تو فیصلے کی کتاب بن جاتی۔
مولانا فضل الرحمان نے تقی عثمانی کی رائے کی اتباع کی
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مولانا فضل الرحمان کو روسٹرم پر بلالیا۔ چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ مولانا صاحب آپ کےآنےکا شکریہ۔ مولانا فضل الرحمان نےکہا کہ علما کی اپنی رائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنےآچکی ہے، آپ نے فرمایا کہ آپ سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، میں 72 سال کی عمر میں پہلی بار کسی عدالت کے سامنے کھڑا ہوا، مجھے اللہ نے عدالت سے بچائے رکھا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اتنے برے نہیں ہیں، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج آپ سب شکایات کا ازالہ کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کی گزار شات کی اتباع کا عندیہ دیا۔ مولانا فضل الرحمان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ پورے فیصلے پر نظرثانی کرے۔انہوں نے کہا کہ جو تحفظات ہیں، سب آپ کے سامنے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ والدصاحب کے انتقال پر مفتی محمود صاحب تعزیت کے لئے ہمارےگھر آئے تھے۔ تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتا، گورداس پور، فیروزپور ہمیں ملتے تو کشمیر ہمارے ہاتھ سے نہ جاتا۔ پاکستان کے لیے جنگ میرے والد صاحب نے بھی لڑی ہے۔میرے والد نے ہر چیز پاکستان کے لیے لگادی۔ کسی نے مجھےقتل کی دھمکی دی۔میں نےکسی سے بدلہ نہیں اتارا۔
مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ شکایت کا ازالہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
مبارک ثانی کا ٹرائل جاری رہنا چاہیے، فضل الرحمان کی استدعا
مولانا فضل الرحمان نے استدعا کی کہ مبارک ثانی کا ٹرائل جاری رہنا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء کو مدنظر رکھا جائے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دی ہم نے فوراً سماعت کے لئے لگادی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کئی سماعتیں عدالت کی ہوئیں۔ اب نظرثانی کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا، یہ نظرثانی نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے لقمہ دیا، یہ نظرِ ثالث ہے۔ مبارک ثانی کو آپ ضمانت کا مستحق سمجھتے ہیں تو الگ بات ہے۔ اس کے توہین آمیز اقدامات پر متعلقہ دفعات اس پر لگیں گی، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی کمیٹی کا فیصلہ پارلیمان نے ویب سائیٹ پر ابھی نہیں ڈالا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائیں۔
دیگر علما کی معروضات
مفتی طیب قریشی نے کہا کہ عدالت سے ہاتھ باندھ کر استدعا کر رہا ہوں مسلمان مضطرب ہیں انہیں تسلی دیں۔ جو تجاویز علما نے دی ہیں ان پر عمل درآمدکیا جائے۔ میں ان سے متفق ہوں۔ مفتی طیب قریشی نے چیف جسٹس کو پشاور میں مسجد مہابت خان کے دورے کی دعوت دی تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مسجد شاید چوک یادگار میں ہے۔ میرے کے والد نے تحریک پاکستان میں سب سے بہترین تقریر چوک یادگار میں کی تھی۔ میرے والدکہتے ہیں کہ سارا مجمع مسلم لیگ مخالف تھا۔تقریرکے بعد سب نےقائداعظم کےنعرے لگائے۔
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ نظرثانی فیصلےکا پیراگراف 42 حذف کرے۔
فرید پراچہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے پیرا 7 پر ہمیں اعتراض ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمان نے جو تفصیلات ہمارے سامنے رکھیں اس کے علاوہ کوئی نئی بات ہے توبتائیں۔
فرید پراچہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے پیرا 37،38،39،40 اور 49 سی کا بھی دوبارہ جائزہ لیں۔
مذہبی اسکالر ڈاکٹرعطا الرحمان نے اپنی معروضات میں کہا کہ کچھ چیزیں قابل تعریف ہیں ان کا ذکر ہوناچاہیے۔ آپ عدالتی فیصلوں پر قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا معاملہ قابل تحسین اقدام تھا۔ شریعت اپیلیٹ بینچ کئی عرصےسےالتوا میں تھا اسے آپ نے مکمل کیا۔ مبارک ثانی کیس میں ہمیں امید ہے یہ آخری موقع ہوگا اور مناسب فیصلہ آئےگا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ہم متفق ہیں۔ مسلمانوں کے جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔
کیونکہ عدالت نے وکیلوں کو سننے سے پہلے منع کر دیا تھا تو وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت سے درخواست کی کہ "ہمیں اراکان پارلیمنٹ کی حیثیت سے سنا جائے۔" چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ کھوسہ صاحب، پارلیمنٹ بہت بااختیار ہے۔ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ختم کرسکتی ہے، آپ توپارلیمنٹ سے فیصلہ ختم بھی کروا سکتےہیں۔