سٹی42: آرمی ترمیمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی کنٹرووررسی کے حوالہ سے انکشاف ہوا ہے کہ صدفر عارف علوی نے اپنے پرنسپل سیکرٹری پر خاموش رہنے کے لئے دباو ڈالا۔ اور انہیں لالچ دے کراپنے دعووں کے برعکس بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔
باخبر ذرائع کے مطابق صدر عارف علوی نے اپنے پرنسپل سیکرٹری وقار احمد سے کہا کہ آفشیل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلز کے معاملے پر اُن کی پارٹی پی ٹی آئی کا اُن پر بہت دباؤ ہے، ابھی وہ (وقار احمد) خاموش ہو جائیں اور دو تین سال بعد پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی تو اُن کی تلافی کر دی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق اس پیشکش کے جواب میں وقار احمد نے جواب دیا کہ وہ چند ماہ میں ریٹائر ہو رہے ہیں، صدر مملکت اپنی سیاست کی خاطر اُن کے بے داغ کیرئیر پر دھبہ نہ لگائیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کی خواہش تھی کہ وقار احمد آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے پر ان کے دعووں کو جھٹلانے والی باضابطہ وضاحت نہ دیں اور کوئی سرکاری خط لکھر کر انہیں ان کے وقار احمد پر لگائے ہوئے الزام کا جواب نہ دیں لیکن وقار احمد نے دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
ذرائع نے بتایاکہ پرنسپل سیکرٹری وقار احمد نے صدر علوی کو بتایاکہ اگلے مہینے اُن کی بیٹی کی شادی ہے اور اُن کیلئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ اُن پر کسی ایسی بات کا الزام لگایا جائے جس سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
20 اگست کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہ کرنے کا مبہم دعویٰ کرتے ہوئے اپنے اسٹاف پر الزام لگایا تھا کہ اسٹاف نے ان کی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔ صدر عارف علوی نے دعویٰ کیا کہ میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنےعملے کو کہا کہ بل کو بغیر دستخط کے واپس بھیجیں۔
صدر نے اپنے دعوے کے اثبات میں یہ بھی کہا کہ میں نے عملے سے کافی بار تصدیق کی کہ دونوں بل بغیر دستخط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں، مجھے آج معلوم ہوا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔
اس کے بعد پیر کےروز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات واپس کردیں۔ سیکرٹری کی تبدیلی کا فیصلہ بظاہر آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی ایکٹ پر صدر کے بیان کے تناظر میں کیا گیا۔
ایوان صدر سیکرٹریٹ نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو خط لکھ کر سیکرٹری کی تبدیلی کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں۔
ایوان صدر کے خط میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی گریڈ 22 کی خاتون افسر حمیرا احمد کو صدر کا سیکرٹری لگانے کی سفارش بھی کی گئی۔
جب بات اس نہج پر پہنچ گئی تو وقار احمد نے بھی منہ کھول کر بتا دیا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جو صدر عارف علوی الزام لگا رہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صدر علوی نے نہ تو دونوں بلز کی مظوری دی اور نہ ہی یہ بل قانونی طریقہ کار کے مطابق پارلیمنٹ کو واپس بھجوائے۔ سیکرٹری وقار احمد نے صدر کو خط لکھا اور کہا کہ صدر مملکت نے میری خدمات واپس کردیں لیکن میں حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ایسا تاثر دیا گیا کہ سیکرٹری مذکورہ بلوں سے متعلق کسی بے ضابطگی کا ذمہ دار ہے۔
وقار احمد نے اپنے خط میں لکھا کہ آرٹیکل 75 کے تناظر میں صدر کو بل کی 10دن کے اندر منظوری دینےکا اختیار ہوتا ہے، آرٹیکل 75 کے تحت صدر کو بل 10دن کے اندر واپس پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کے لیے بھجوانےکا بھی اختیار ہے، واضح تھا وزیراعظم نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ والی ایڈوائس8 اگست کو بھیجی اور 17اگست کو دس دن کی مدت پوری کی جائے گی، صدر مملکت نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کی منظوری دی نہ ہی واپس پارلیمنٹ کو بھجوایا، وقار احمد نے اپنے خط میں گواہی دی کہ آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 21 اگست تک صدر مملکت کے آفس میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدرمملکت کی سیکرٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ کو واپس کرنےکا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے، میں حلف پر بیان دینےکو تیار ہوں، صدر مملکت سے درخواست ہےکہ میری خدمات واپس کرنےکا خط واپس لیں، میں نے ایوان صدرکے دفتر کے وقار کو کم نہیں کیا۔